بشیربدر – مجموعۂ کلام: آسمان
یہ زمین سوئی تھی نیند میں یہاں لا کے مجھ کو بسا گئے
وہ چمکتی دھوپ کی شال پر مرے دل کے پھول سجا گئے
کسی رات برف کی اوٹ سے نئی آگ لے کے وہ آئیں گے
اگر آج دھوپ کی گود میں وہ گلاب اپنے سُلا گئے
کئی لوگ آگ کے پھول ہیں ذرا دور ہوں تو چمن چمن
جہاں مسکرا کے گلے لگے دل و جاں میں آگ لگا گئے
یہ ہنسی بھی کوئی نقاب ہے جہاں چاہا ہم نے گرا لیا
کبھی اس کا درد چھپا گئے کبھی اپنا درد چھپا گئے
وہاں سات چولہے، انگیٹھیاں بجھے مرد و عورتیں بچیاں
جہاں شام آئی تو سات گھر اسی ایک گھر میں سما گئے
مرے دائیں ہاتھ کی انگلیاں تو اندھیری رات کی شمعیں ہیں
یہ بدن تمام ہے موم کا وہ اسی لئے تو جلا گئے
کئی راج محلوں کے راجگاں لئے ساتھ میوؤں کی برفیاں
کبھی آج تک جو بنی نہیں اسی مورتی پہ چڑھا گئے
ابھی رات پھولوں کی کار میں یہاں ایک آئے تھے پیر جی
ہمیں بعد مرگ ملے گا کیا وہ تمام نقشے کھا گئے
Add Comment