دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے
دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے
چاندنی جتنی بھی ممکن ہو چرالی جائے
یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں
اِس کے سینے سے اگر لہر اٹھالی جائے
ہم سمجھتے ہیں محبت کے تقاضے لیکن
کیسے اُس در پہ کوئی بن کے سوالی جائے
یہ جو سودا ہے یہ مہنگا تو نہیں ہے ہرگز
سر کے بدلے میں جو دستار بچالی جائے
میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے
سعدؔ جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے
چاندنی جتنی بھی ممکن ہو چرالی جائے
یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں
اِس کے سینے سے اگر لہر اٹھالی جائے
ہم سمجھتے ہیں محبت کے تقاضے لیکن
کیسے اُس در پہ کوئی بن کے سوالی جائے
یہ جو سودا ہے یہ مہنگا تو نہیں ہے ہرگز
سر کے بدلے میں جو دستار بچالی جائے
میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے
سعدؔ جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے
[spacer size=”30″]
شاعر: سعدؔاللہ شاہ
Add Comment