یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو
یہ صلہ ملا ہے مجھ کو تیری دوستی کے پیچھے نہ تو دل کا کوئی مقصد نہ تو میری کوئی منزل تیرے آستاں سے سر کو میں اٹھاؤنگا نہ ہر گز مجھے کہہ کے تم شرابی نہ کرو جہاں میں رسوا کوئی ان سے جا کے اتنا ذرا اے شکیلؔ کہہ گے
شاعر: شکیل بدایونی
تم نے تو مجھ سے کہا تھا کہ مسعود میں تمہاری زندگی کو دائمی خوشیوں سے بھر دونگی !
تبصرہ مسعود
کہ ہزاروں غم لگے ہیں میری زندگی کے پیچھے
میں چلا ہوں کیوں نجانے کسی اجنبی کے پیچھے
میں کہاں کہاں نہ بھٹکا تیری بندگی کے پیچھے
کوئی راز بھی تو ہو گا میری میکشی کے پیچھے
میں ہوا جہاں میں رسوا تیری عاشقی کے پیچھے
پر یہ کیا کہ تمہارے پیار میں ، تمہاری دوستی میں مجھے یہ صلہ ملا؟
کہ تمام عمر میری اب آہوں میں، حسرتوں میں، ندامیوں میں، کرب میں گزرنے لگی!
میری مثال تجھ بن اب ایسے ہی ہے جیسے ایک بے منزل راہرو! جسکی کوئی منزل نہ ہو!
جوادھرسے ادھردن بھر بھٹکتا پھرے اور پھر کھڑا سوچے کہ میں کس اجنبی کی تلاش میں ہوں؟
اور جب کبھی مجھے تمہارا نقش پا مل ہی جائے تو میں اسی کو اپنی منزل سمجھ لونگا! میں یہاں سے
کہیں نہیں جاؤنگا کہ میں کہاں کہاں سے بھٹک کر ادھر آیا ہوں!
میری حالت کو لوگ میخوری سمجھ بیٹھے ہیں، کیوں مسعود میاں کو بدنام کرتے ہو؟
میں نے کب پی ہے؟ اور اگر کبھی پی بھی لی ہے تو اسکے پیچھے کیا راز ہے – تم کیا جانو!
اے شکیل! او شکیل! جب کبھی اس سے تیرا سامنا ہوا تو اسے میرا پیغام دیدینا:
میں کہاں کہاں رسوا نہ ہوا اک تیرے دیدار کے لیے!!!
Add Comment