گلدستۂ غزل

یہ صلہ ملا ہے مجھ کو

یہ صلہ ملا ہے مجھ کو
یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو یہ صلہ ملا ہے مجھ کو  یہ صلہ ملا ہے مجھ کو

یہ صلہ ملا ہے مجھ کو تیری دوستی کے پیچھے
کہ ہزاروں غم لگے ہیں میری زندگی کے پیچھے

نہ تو دل کا کوئی مقصد نہ تو میری کوئی منزل
میں چلا ہوں کیوں نجانے کسی اجنبی کے پیچھے

تیرے آستاں سے سر کو میں اٹھاؤنگا نہ ہر گز
میں کہاں کہاں نہ بھٹکا تیری بندگی کے پیچھے

مجھے کہہ کے تم شرابی نہ کرو جہاں میں رسوا
کوئی راز بھی تو ہو گا میری میکشی کے پیچھے

کوئی ان سے جا کے اتنا ذرا اے شکیلؔ کہہ گے
میں ہوا جہاں میں رسوا تیری عاشقی کے پیچھے

شاعر: شکیل بدایونی

تم نے تو مجھ سے کہا تھا کہ مسعود میں تمہاری زندگی کو دائمی خوشیوں سے بھر دونگی !
پر یہ کیا کہ تمہارے پیار میں ، تمہاری دوستی میں مجھے یہ صلہ ملا؟
کہ تمام عمر میری اب آہوں میں، حسرتوں میں، ندامیوں میں، کرب میں گزرنے لگی!
میری مثال تجھ بن اب ایسے ہی ہے جیسے ایک بے منزل راہرو! جسکی کوئی منزل نہ ہو!
جوادھرسے ادھردن بھر بھٹکتا پھرے اور پھر کھڑا سوچے کہ میں کس اجنبی کی تلاش میں ہوں؟
اور جب کبھی مجھے تمہارا نقش پا مل ہی جائے تو میں اسی کو اپنی منزل سمجھ لونگا! میں یہاں سے
کہیں نہیں جاؤنگا کہ میں کہاں کہاں سے بھٹک کر ادھر آیا ہوں!
میری حالت کو لوگ میخوری سمجھ بیٹھے ہیں، کیوں مسعود میاں کو بدنام کرتے ہو؟
میں نے کب پی ہے؟ اور اگر کبھی پی بھی لی ہے تو اسکے پیچھے کیا راز ہے – تم کیا جانو!
اے شکیل! او شکیل! جب کبھی اس سے تیرا سامنا ہوا تو اسے میرا پیغام دیدینا:
میں کہاں کہاں رسوا نہ ہوا اک تیرے دیدار کے لیے!!!

تبصرہ مسعود

lgourdu

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW