Sikah-e-Be’muhr
ٹوٹ کر گرنا ہو جس کا مقدر‘ وہ گوہر ہوں میں
جو کبھی استعمال نہ ہو سکے وہ سکۂ بے مہر ہوں میں
شومئِ تقدیر کی یہ ادا بھی دیکھی ہم نے
ثریّا کے عقب سے آن گرا زمین پر ہوں میں
دنیا کی رنگ برنگی موجوں میں غرق ہو گیا
جسے تقدیر نے ڈبویا وہ سفینۂِ بے رہبر ہوں میں
واہ ری تقدیر تجھے اس قدر تھی حقارت ہم سے
اک بوجھ سا بنا کے رکھا گیا زمین پر ہوں میں
کسی کا ساتھ مل جاتا تو تقدیر سنور جاتی
سب کے ہوتے ہوئے بھی رہا تنہا مگر ہوں میں
ساری دنیا مستی میں گیت خوشیوں کے گاتی ہے
مگر اپنی تقدیر پر رہا نوحہ گر ہوں میں
ہار گیا تھا حوصلہ ستم دنیا نے اتنے کیے
اک مدت سے رہا اپنے سے بے خبر ہوں میں
جلتی شمع کا ہر پروانہ ساتھی ہوتا ہے
بجھی شمع کا نہیں کوئی‘ ہاں ہمسفر ہوں میں
اب تم ساحل پہ کبھی مجھے ساتھ لے جانا مسعودؔ
وہ ساحل ہے تو کیا غم‘ اب بھنور ہوں میں
جو کبھی استعمال نہ ہو سکے وہ سکۂ بے مہر ہوں میں
شومئِ تقدیر کی یہ ادا بھی دیکھی ہم نے
ثریّا کے عقب سے آن گرا زمین پر ہوں میں
دنیا کی رنگ برنگی موجوں میں غرق ہو گیا
جسے تقدیر نے ڈبویا وہ سفینۂِ بے رہبر ہوں میں
واہ ری تقدیر تجھے اس قدر تھی حقارت ہم سے
اک بوجھ سا بنا کے رکھا گیا زمین پر ہوں میں
کسی کا ساتھ مل جاتا تو تقدیر سنور جاتی
سب کے ہوتے ہوئے بھی رہا تنہا مگر ہوں میں
ساری دنیا مستی میں گیت خوشیوں کے گاتی ہے
مگر اپنی تقدیر پر رہا نوحہ گر ہوں میں
ہار گیا تھا حوصلہ ستم دنیا نے اتنے کیے
اک مدت سے رہا اپنے سے بے خبر ہوں میں
جلتی شمع کا ہر پروانہ ساتھی ہوتا ہے
بجھی شمع کا نہیں کوئی‘ ہاں ہمسفر ہوں میں
اب تم ساحل پہ کبھی مجھے ساتھ لے جانا مسعودؔ
وہ ساحل ہے تو کیا غم‘ اب بھنور ہوں میں
Add Comment