بزمِ سخن گلدستۂ غزل

غزلِ آتشؔ

غزلِ آتشؔ

[spacer size=”10″]

غزلِ آتشؔ

وحشتِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورتِ انسان پیدا

دل کے آئینے میں جوھرِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورتِ جاناں پیدا

باغِ سنسان نہ کر انکو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مراغِ خوش الہاں پیدا

اب قدم سے ہے مرے خانۂ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلۂ جنباں پیدا

روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم خاکی سمجھ اسکو جو ہو زنداں پیدا

بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم عدم
دیکھتا ہوں جسے ہوتا ہے وہ عریاں پیدا

اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جسکی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا

موجدِ اس کی ہے سیہ  روزی ہماری آتشؔ
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شبِ ہجراں پیدا

شاعر: خواجہ حیدر علی آتشؔ


غزلِ آتشؔ

logo 2

For Romanized Urdu see page 2

 

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW