Meri Tehreerein Shab-o-Roz

Ley’la

Ley'la
Ley’la
میں ایک ہنستا کھیلتا لیلا تھا۔

بھوک لگتی تو گھاس پھوس کھا لیتا، پیاس لگتی تو اپنی بکری ماں کا دودھ پی لیتا۔ مالک نے میری حفاظت کے لیے ایک کتا پالا جو میری چوکیداری کرتا۔ اِس تھانیدار کی موجودگی مجھے بہت اچھی محسوس ہوتی تھی کہ ارد گرد کوئی خطرہ ہوتا اُس سے فوراً نجات مل جاتی۔

کبھی کبار مالک کے ٹیلیوژن پر معصوم اور بے کس بکروں کی قربانیاں دیکھ کر! میرا دل دہک جاتا اور پھر یہ سوچ کر خوش ہوجاتا کہ وہ تو ٹی وی ہے! اور میں اپنے مالک کے پاس خوش ہوں ،ے! یہ مجھے کبھی ذبح نہیں کرے گا کیوں کہ میں تو اِسکی بیٹی کا بہت پیارا کھلونا بھی ہوں نا!

اچھلنا کھیلنا کودنا اور مالک کی بیٹی کا دل بہلانا یہی میرا نصب العین تھا۔

وقت گزرنے کا پتہ ہی نا چلاے! اور میں ایک سفید رنگ کا خوبصورت ہینڈسم قدوقامت والا دلکش بکرا بن گیا۔ے! اب تو بکریاں بھی دم ہلاتی ے!، جگالی کرتی میرے پیچھے آنے لگیں۔ے! اور ہم مغرورالغرور بکرا بن کر بیں بیں بیں کرتے منتیں کراتے۔ واہ ! کیا زندگی تھی!! Ley’la

2011 03 17 17 44 00

ایک دن کیا ہوا۔

مالک کے گھروالوں نے مجھے خوب نہلایا دھلایاے!، میرے سفید جسم پر خوبصورت سے پھول بنائےے! اور میرے گلے میں ہار پہنائے۔ میں سمجھا میری شادی ہونے والے ہے۔ے! سننے میں صرف اتنا آیا کہ فلاں دن نماز کے بعد!اب میں فلاں دن کا انتظار کرنے لگا۔

بہت اچھا اور حسین دن تھا، ہرطرف چہل پہل ے!، رنگ برنگے کپڑے پہنے لوگ میرے پاس آتے پیار کرتے اور دعائیں دیتے گویا کہہ رہے ہوںے! ’’ جا بیٹا ہمارا تھا تو خوش تھا اب بیوی کے ہتھے چڑھنے لگا ہے، کیاے! یہ اپنے بچوں کو بھی یہی دعائیں دیتے ہوں گے؟‘‘

ایسے میں اک بہت جثیم قامت سیاہ کالے رنگ کا بندہے! ہاتھ میں چھریاں لیے میری جانب بڑھا،۔

میں تو پریشان ہو گیا کہ یہ کیسا نکاح خواں اٹھا لائے ہیں۔ے! اور صاحب ایسا بے تکلف نکاح خواں کے آتے ہی اُس نے اپنی قمیض اتاریے! اور مجھ پر برس پڑا۔ میری ٹانگیں باندھ کر مالک کو پکڑا دیں اوqasaiر مجھے لٹا دیا۔ے! نکاح کے بعد تو انسان سیدھے ہوتے ہیں یہ مجھے ابھی سے الٹا کررہے ہیں۔ خیر صاحب جب اُس نے میرے گلے پر اپنے چھِتر جیسے ہاتھ رکھے تو مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے، یہ تو قصائی ہے۔میں نے چیخنا شروع کردیا کہ اِس خوفناک قصائی سے کوئی بچائے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ وہ جو میری شادی کا دن بننا تھا وہ دوسروں کی غذا کا دن بن گیا۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان پر رحم نہ فرماتے اور اپنے ہی بیٹوں کی قربانی دینے کا حکم دیتے توانسان بچارہ کیا کرتا؟ میں نے جب اللہ اکبر کی تکبر سنی تو مجھے انسان کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے پر فخرمحسوس ہوا۔

 Ley’la

مسعودؔ

Ley’la

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW