یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی
کہوں یہ کیسے اِدھر دیکھ یا نہ دیکھ اُدھر
کہ درد درد ہے پھر بھی، نظر نظر ہے پھر بھی
جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں
مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی
شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکشِ جنت ہو، گھر ہے گھر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی
تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اُتر گیا رگِ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی
اگرچہ بے خودئ عشق کو زمانہ ہوا
فراق کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی
شاعر: فراق گورکھپوری
Add Comment