بزمِ سخن گلدستۂ غزل

میرے دل سے تیرے دل تک

میرے دل سے تیرے دل تک

میرے دل سے تیرے دل تک

پھیل گیا جب آس کا گلشن، میرے دل سے تیرے دل تک
پھول کھلانے آئی دھڑکن، میرے دل سے تیرے دل تک

چھائی ہوئی تھی گھور اداسی، تیری میری روح تھی پیاسی
پیار پون تب سنکی سن سن، میرے دل سے تیرے دل تک

کپڑوں میں تھا جسم برھنہ، مشکل تھا جب شہر میں رہنا
جنگل کا تب پھیلا دامن، میرے دل سے تیرے دل تک

بھیڑ تو ہے رشتوں ناطوں کی، چھیڑ نہ بات ملاقاتوں کی
آج بھی ہے ایک بیگانہ پن، میرے دل سے تیرے دل تک

جہاں رہے نت پیار کی جھلمل، دور نہیں ہے اب وہ منزل
قدم قدم لیکن سو رہزن، میرے دل سے تیرے دل تک

کرے گا کیا لفظوں کا تیشہ، لڑتے ملیں قتیلؔ ہمیشہ
اک مُلا اور ایک برھمن، میرے دل سے تیرے دل تک

دیں ہم لاکھ قتیلؔ دلاسے، بن پانی کیا بہلیں پیاسے
برسے کاش کبھی کوئی ساون، میرے دل سے تیرے دل تک

[spacer size=”30″]

شاعر: قتیل شفائی

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW