بزمِ سخن گلدستۂ غزل

میں خیال ہوں کسی اور کا

میں خیال ہوں کسی اور کا

میں خیال ہوں کسی اور کا

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ میرا عکس ہے ، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دستِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
میری روشنی تیرے خدوخال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتا نہ تھا
تیری داستاں کوئی اور تھی، میرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جرم تو کوئی اور تھا پر میری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں ، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو میری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
[spacer size=”30″]

شاعر: سلیم کوثر

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW