بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں – غزل
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرہ ہے، سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا دادِ تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شامِ غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر، تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی راستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر، تری آنکھیں
Add Comment