بشیربدر – مجموعۂ کلام: آسمان
تیر نظروں کے تو پلکوں کی کماں رکھے ہوں
ان کی کیا بات ہے پھولوں کی زباں رکھے ہیں
ہم تو آنکھوں میں سنورتے ہیں وہیں سنوریں گے
ہم نہیں جانتے آئینے کہاں رکھے ہیں
اپنے قاتل بھی اسی روز سے شرمندہ ہیں
ہم بھی خاموش بہت اپنی زباں رکھے ہیں
دل کبھی ریت کا ساحل نہیں ہونے دیتے
ہم نے محفوظ وہ قدموں کے نشاں رکھے ہیں
جن پہ تحریر ہے بچپن کی محبت اپنی
اب مرے گھر کے وہ دروازے کہاں رکھے ہیں
Add Comment