بشیربدر – مجموعۂ کلام: آسمان
ہر اک چراغ کی لَو ایسی سوئی سوئی تھی
وہ شام جیسے کسی سے بچھڑ کے روئی تھی
نہا گیا تھا میں کل جگنوؤں کی بارش میں
وہ میرے کاندھے پہ سر رکھ کے خوب روئی تھی
قدم قدم پہ لہو کے نشان کیسے ہیں
یہ سر زمیں تو مرے آنسوؤں نے دھوئی تھی
مکاں کے ساتھ وہ پودا بھی جل گیا جس میں
مہکتے پھول تھے پھولوں میں ایک تتلی تھی
خود اس کے باپ نے پہچان کر نہ پہچانا
وہ لڑکی پچھلے فسادات میں جو کھوئی تھی
Add Comment