بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں، کہیں آنچلوں کا نگر نہیں
یہ پہاڑ دھوپ کے پیڑ ہیں، کوئی سایہ دار شجر نہیں
وہ بکا ہے کتنے کروڑ میں ذرا اس کا حال بتائیے
کوئی شخص بھوک سے مر گیا، یہ خبر تو کوئی نہیں
یہ مہکتے پھولوں کی چھتریاں، مری مہرباں، مری سائباں
ترے ساتھ دھوپ کے راستوں کا سفر تو کوئی سفر نہیں
میں وہاں سے آیا ہوں، آج بھی جہاں پیار دل کا چراغ ہے
یہ عجیب رات کا شہر ہے، کہیں روشنی کا گذر نہیں
یہ زمین درد کی نہر ہے، یہ زمین پیار کا شہر ہے
میں اسی زمین کا خواب ہوں، مجھے آسمانوں کا ڈر نہیں
کوئی میرؔ ہو کہ بشیرؔ ہو، جو تمہارے ناز اٹھائیں ہم
یہ ظفر کی ولی ہے باد اب یہاں ہر کسی کا گذر نہیں
Add Comment