بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
میں تو ایک کاغذی پھول تھا، سر شام خوشبو سے بھر گیا
میں کہاں ہوں مجھ کو خبر نہٰں، مجھے کون چھو کے گزر گیا
وہ اداس لڑکی، بہار لائی پہاڑیوں سے زمین پر
مرے دل میں درد کا چاند بھی یونہی زینہ زینہ اتر گیا
یہ گلاب بھی مرا عکس ہے، یہ ستارہ بھی مرا نقش ہے
میں کبھی زمین میں دفن ہوں، کبھی آسماں سے گزر گیا
میں اداس چاند کا باغ ہوں، میں گئے دنوں کا سراغ ہوں
مری شخ شاخ جھلس گئی، مرا پھول پھول بکھر گیا
وہ سفید پھولوں سی اک دعا مرے ساتھ ساتھ رہی سدا
یہ اسی کا فیض ہے بارہا میں بکھر بکھر کے سنور گیا
مرے آنسوؤں کی کتاب بھی، تیری خوشبوؤں سے مہک گئی
مرا شعر ہے ترا آئینہ جہاں شام آئی، سنور گیا
Add Comment