تنہا تنہا

تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا معلوم

Ahmed Faraz
منسوبہ سے 

تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا معلوم
وقت نے آج کے سونپ دیا ہے تُجھ کو
کس کے دامن سے ہے باندھا گیا پلوتیرا
کس سے تقدیر نے وابستہ کیا ہے تُجھ کو

تیرے ہونٹوں پہ تو ہیں شرم وحیا کی مہریں
تیرے ماں باپ نے کیوں نرخ ترابول دیا
کالے بازار میں نیلام اُٹھا کر تیرا
سبز باغوں کے تصور پہ تجھے تول دیا

جو سجائی گئی فردوس نمائش کےلیے
وہ کسی اور کی تعمیر ہے میری تو نہیں
یہ مکانات،یہ جندریہ،یہ دکانیں،یہ زمیں
میرے اجداد کی جاگیر ہے میری تو نہیں

میں تو آوارہ ساشاعرہوں مری کیا وقعت
ایک دوگیت پریشان سے گالیتا ہوں
گا  ہے گا ہے کسی نا کام شرابی کی طرح
ایک دوزہر کے ساغر بھی چڑھا لیتا ہوں

تو کہ اک وادی گلرنگ کی شہزادی ہے
دیکھ بیکار سے انساں کےلیے وقت نہ ہو
تیرے خوابوں کے جزیروں میں بڑی رونق ہے
ایک انجان سے طوفاں کےلیے وقف نہ ہو

سوچ ابھی وقت ہے حالات بدل سکتے ہیں
ورنہ اس رشتہ بے ربط پہ پچھتائے گی
توڑ ان کہنہ رسومات کے بندھن ورنہ
جیتے ہی موت کے زنداں ہیں اُترجائے گی

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

 

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW