منسوبہ سے
تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا معلوم
وقت نے آج کے سونپ دیا ہے تُجھ کو
کس کے دامن سے ہے باندھا گیا پلوتیرا
کس سے تقدیر نے وابستہ کیا ہے تُجھ کو
تیرے ہونٹوں پہ تو ہیں شرم وحیا کی مہریں
تیرے ماں باپ نے کیوں نرخ ترابول دیا
کالے بازار میں نیلام اُٹھا کر تیرا
سبز باغوں کے تصور پہ تجھے تول دیا
جو سجائی گئی فردوس نمائش کےلیے
وہ کسی اور کی تعمیر ہے میری تو نہیں
یہ مکانات،یہ جندریہ،یہ دکانیں،یہ زمیں
میرے اجداد کی جاگیر ہے میری تو نہیں
میں تو آوارہ ساشاعرہوں مری کیا وقعت
ایک دوگیت پریشان سے گالیتا ہوں
گا ہے گا ہے کسی نا کام شرابی کی طرح
ایک دوزہر کے ساغر بھی چڑھا لیتا ہوں
تو کہ اک وادی گلرنگ کی شہزادی ہے
دیکھ بیکار سے انساں کےلیے وقت نہ ہو
تیرے خوابوں کے جزیروں میں بڑی رونق ہے
ایک انجان سے طوفاں کےلیے وقف نہ ہو
سوچ ابھی وقت ہے حالات بدل سکتے ہیں
ورنہ اس رشتہ بے ربط پہ پچھتائے گی
توڑ ان کہنہ رسومات کے بندھن ورنہ
جیتے ہی موت کے زنداں ہیں اُترجائے گی
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment