اب جو کانٹے ہیں دل میں تمناؤں کے پُھول تھے
اب جو کانٹے ہیں دل میں تمناؤں کے پُھول تھے
آج کے زخم پہلے شناؤں کے پُھول تھے
دشت غربت کچھ ایسا ہوا گل فشاں گل فشاں
جس طرح پُھوٹتے آبلے پاؤں کے پُھول تھے
تھی ہمیں کو بہت خارزار جنوں کی لگن
دوستو!ورنہ اقوال داناؤں کے پُھول تھے
غم کی لو سے دھڑکتے دلوں کے کنول بجھ گئے
دُھوپ میں کیسے کھلتے وہ جو چھاؤں کے پُھول تھے
برف زاروں میں کوئی اگر یہ سماں دیکھتا
جابجا نقش پاکوہ پیماؤں کےپُھول تھے
شہر میں حسن سادہ کو کانٹوں میں تولاگیا
بِک گئے کوڑیوں مول جو گاؤں کے پُھول تھے
زہر آگیں فضا بستیوں کی جنھیں کھا گئی
ہم فراؔز ایسے سنسان صحراؤں کے پُھول تھے
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment