ہم ہیں ظلمت ہیں کہ وہ اُبھرا نہیں خورشید اب کے
ہم ہیں ظلمت ہیں کہ وہ اُبھرا نہیں خورشید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردیداب کے
کون سنتا تھا حدیث غم دل یُوں تو مگر
ہم نے چھیڑی ہے ترے نام سےتمہید اب کے
پی گئے رند کہ نایاب ہے صہبا ورنہ
زہر تھی محتسب شہرکی تنقید اب کے
تشنگی وجہ جنوں ہے تو چلویوں ہی سہی
کوئی سنگ آئے سر ساغر جمشید اب کے
اک زمانے سے نہ روئے ہیں نہ جاں تڑپی ہے
دل پہ لازم ہے ترے درد کی تجدید اب کے
قصۂ ایلِ وفا جانے کہاں تک پہنچے
منزل دار و رسن ٹھہری ہے تمہید اب کے
لہو روئے ہیں تو گلنار شفق پھوٹے گی
آنسو بوئے ہیں تو ہم کاٹین گے خورشید اب کے
ہم نے یہ سوچ کے جان دی ہے محبت میں فرازؔ
بوالہوس کرتے ہیں کس رنگ میں تقلید اب کے
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment