نشتہ گیسوئے شب تاب کہاں
نشتہ گیسوئے شب تاب کہاں
آنکھ کُھل جائے تو پھر خواب کہاں
جی جلاتے ہیں سحر کے جھونکے
کھو گیا چشمہ کتاب کہاں
شہر سنسان ہے صحرا کی طرح
اب وہ ہنگامہ احباب کہاں
سطح دریا تو ہے ہموار مگر
بستیاں ہوگئیں غرقاب کہاں
تلخئی سم ہے بسوں کے مس تک
کوئی پی جائے تو زہر اب کہاں
عشق اک کوہ گراں تھا پہلے
اب محبت کے وہ آداب کہاں
اب کہاں اہل وفا ملتے ہیں
پہلے ہم لوگ تھے نایاب کہاں
اب تو دھڑکن سے بھی جی ورکتا ہے
اب یہ دل پارہ سیماب کہاں
ق
ہم بھی کرتے تھے چراغانِ بہار
لیکن اب آنکھوں ہیں خونناب کہاں
ہم کو بھی لذّت غم تھی پیاری
لیکن اب جی میں تب وتاب کہاں
اب بھی پایاب نہیں موجہ غم
پھر بھی اندیشہ سیلاب کہاں
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment