اے بُھو کی مخلوق
(14اگست 1954ء)
آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ
چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہرپنہ
پھر بھی تیری رُوح بُجھی ہے اور تقدیر سیہ
پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں ہاتھوں میں کشکول
کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی کے بول نہ بول
آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق
اے بُھو کی مخلوق
بیس نہ سُو نہ ہزار نہ لاکھ ہیں پُورے آٹھ کروڑ
اتنے انسانوں پر لیکن چندا فراد کا زور
مزدور اور کسان کے حق پر جھپٹیں کالے چور
کھیت تو سونا اُگلیں پھر بھی ہے ناپید اناج
تیرے دیس میں سب کچھ اور تُو غیروں کی محتاج
گوداموں کے پیٹ بھرے ییں بوجھل ہیں صندوق
اے بُھو کی مخلوق
آج گرفتہ دل تُو کیوں ہے تو بھی جشن سنا
آنسو گرنا یاب ہیں اپنے لہو کے دیئے جلا
پیٹ پہ پتھر باندھ کے اشب ننگاناچ دکھا
آج تو ہنسی خوشی کا دن ہے آج یہ کیسا سوگ
تیری بہاریں دیکھنے آئیں دُور دُورکے لوگ
تیرتے خزانے پل پل لوٹیں کتنے ہی فاروق
اے بُھو کی مخلوق
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment