تنہا تنہا

اے بُھوکی مخلوق

Ahmed Faraz
    اے بُھو کی مخلوق

(14اگست  1954ء)

آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ
چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہرپنہ
پھر بھی تیری رُوح بُجھی ہے اور تقدیر سیہ
پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں ہاتھوں میں کشکول
کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی کے بول نہ بول
آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق
اے بُھو کی مخلوق

بیس نہ سُو نہ ہزار نہ لاکھ ہیں پُورے آٹھ کروڑ
اتنے انسانوں پر  لیکن چندا فراد کا زور
مزدور اور کسان کے حق پر جھپٹیں کالے چور
کھیت تو سونا اُگلیں پھر بھی ہے ناپید اناج
تیرے دیس میں سب کچھ اور تُو غیروں کی محتاج
گوداموں کے پیٹ بھرے ییں بوجھل ہیں صندوق
اے بُھو کی مخلوق

آج گرفتہ دل تُو کیوں ہے تو بھی جشن سنا
آنسو گرنا یاب ہیں اپنے لہو کے دیئے جلا
پیٹ پہ پتھر باندھ کے اشب ننگاناچ دکھا
آج تو ہنسی خوشی کا دن ہے آج یہ کیسا سوگ
تیری بہاریں دیکھنے آئیں دُور دُورکے لوگ
تیرتے خزانے پل پل لوٹیں کتنے ہی فاروق
اے بُھو کی مخلوق

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW