Uncategorized

پاکستانی فوج

پاکستانی فوج
پاکستانی فوج                                                 Pakistan army
تشکیلِ پاکستان(1947) سے لیکر عمران خان کی حکومت(2022) کو ناجائز حربوں سے گرانے تک پاکستانی فوج کا پاکستانی سیاست میں انتہائی بھیانک، شرمناک اور تباہ کن کردار رہا ہے!
پدرِ ملت کی انتھک محنتوں سے جو ریاست پاکستان کی صورت میں تشکیل پائی اسکی تقسیم ہی غلط تھی، یوں اس غلط تقسیم کو ئی 70 سال بعد انگریز خود اس بات کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گیا کہ انہیں نے سرحدوں کی درجہ بندی میں غلطی کی، وسائل کی تقسیم میں غلطی کی! اور ایک ایسا مسلۂ کھڑا کر دیا جس نے برصغیر میں انسانی حقوق کی شدید ترین پامالی کی اور خون کی ہولیاں کھیلی گئیں۔
مسئلہ کشمیر 1947 ہی سے پاک و ہند کے درمیان کشیدگی کی جڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے فوجیں آزادی سے پہلے ہی ملوث ہو چکی تھیں۔ قائدِاعظم کی وفات کے بعد لیاقت علیخان نے نجانے کس مصلحت کے تحت پاکستانی فوج کو کشمیر سے واپس بلانے کا فیصلہ کیا اور اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ کے ذریعہ حل کرانے کا فیصلہ کیا۔ مگر 75 سال گزر جانے کے باوجود یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔
مگر لیاقت علیخان کے فیصلے نے پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت کو جنم دیا۔ بیشک وہ بغاوت کئی ایک وجوہات کی وجہ سے ناکام ہو گئی مگر اس نے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کو تقویت پہنچائی اور اسکے بعد آج تک ان فوجی سازشوں نے ملکی سیاسی حالات کو متزلزل رکھا!

یوں فوج کے سیاسی گناہوں کی لسٹ میں جو اہم ترین واقعات ہیں وہ یہ ہیں:

  • پاکستان میں پہلی فوج بغاوت
  • لیاقت علیخان کا قتل
  • فاطمہ جناح کی تذلیل
    (میں ذاتی طور پر اس بات کو نہیں مانتا کہ فاطمہ جناح کو سیاست میں لاکر ذلیل فوج نے کی ہے۔ درحقیقت یہ کام ملاؤں نے کیا جن کی سرپرستی میرے روحانی استاد اور معلم مولانا مودودی اور مولانا شبیر عثمانی نے کی۔ مولانا ہمیشہ عورت کی حکومت کے خلاف تھے مگر 1956 کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے فاطمہ جناح کو تیار کیا اور انہیں سیاست میں لائے)
  • ابتدائی حکومتوں کیخلاف سازشیں
  • اسکندرمرزا کا تقرر
    (ایوب خان ایک مدت سے حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے اور ابتدائی حکومتوں کو ناکام کرنے میں جہاں سیاسی دماغ ناکام رہے وہ ایوب خان نے بھی اپنی پوری مشینری استعمال کی، جسکا نتیجہ ایوب کے بہت پرانے اور دیرانہ دوست اسکندرمرزا کو صدر مسلط کرنے پر پورا ہوا)
  • اسکندرمرزا کی حکومت کا تختہ الٹا
    (اور پھر جب ایوب کو اداروں نے اور فوج کے اعلیٰ عہدے داروں نے وفا کا مکمل کا یقین دلایا تو اسکندرمرزا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا)
  • ایوب خان کا تقرر
  • نام نہاد آئین کا تقرر
  • دوسری فوجی بغاوت (جو بنگلہ دیش بنانے کا موجد بنی) اسکو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا
    (لگ بھگ 1965 لیفٹنٹ کماندر معظم حسین نے مجیب الرحمان اور کچھ لوگوں کیساتھ کراچی میں علیحدگی کی بغاوت کا پلان بنایا جس کو اگرتلہ بغاوت کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سازش 1967 میں بے نقاب ہو گئی۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے، تہذیب، سیاسی نظام میں ایسی سازشوں کو جڑ ہی سے ختم کر دیا جاتا اور اس پر کسی قسم کا کوئی رحم نہیں کیا جاتا۔ مگر ایوب خان نے اپنی حکومت بچانے، بنگالیوں کو طیش میں نہ لانے کی خاطر اس سے مکمل طور پر آنکھ چرا لینے کا فیصلہ کیا)
  • پہلے آزاد الیکشن کو سبوتاژ کرنا
    1970 کے پہلے آزادنہ الیکشن میں عوامی لیگ کی زبردست کامیابی نے مغربی پاکستان کے سیاسی اور عسکری قوت کو ہلا کر رکھ دیا۔ عوامی لیگ کی کامیابی کا تسلیم نہ کرتے ہوئے بھٹو کو خاص طور پر یحیٰ خان کی حمایت حاصل تھی اور یحیٰ خان اندر ہی اندر ایوب کیخلاف بھی اپنی مشینری استعمال کر رہے تھے۔ لہذا ایک جمہوری حکومت بنانے سے انکار کرنا ملک کے لیے ناسور ثابت ہوا)
  • عوامی لیگ کی جیتی ہوئی نشستوں کو توڑنے کے لیے انکے کامیاب ممبران کا ہارس ٹریڈنگ
    ـ(عوامی لیگ کو توڑنے کے لیے اس کے ممبران کو جبراً دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کے احکامات ملنے لگے، نہ ماننے کی صورت میں گمنام لوگوں سے انکے خاندان کے خاتمے کی دھمکیاں ملنے لگی۔ یوں عوامی لیگ کے بہت سارے ممبران ان جماعتوں میں شامل ہو گئے جو یا تو تھی ہی نہیں اور اس مقصد کے لیے بنائی گئیں یا پھر الیکشن میں بری طرح ناکام تھیں)
  • بھٹو کو لمبی ڈھیل دینا اور انکی حتمی طور پر پشت پناہی کرنا
    (سن ستر کے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد بھٹو نے اپنی شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے اور مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی بچائے گندی اور غلیظ سیاست کھیلنی شروع کی۔ یحیٰ خان کی پشت پناہی میں مغربی پاکستان کے دوسرے سیاستدانوں کو اپنے اپنے صوبوں کی خودمختاری کا نعرہ لگانے کا مشورہ دینے لگے اور بنگالیوں کی تذلیل شروع کر دی)
  • بنگال میں لاکھوں افراد کا بدترین سیلاب میں لقمہ اجل ہونے کے باوجود اس سے جان بوجھ کر لاپرواہی کرنا
    (سن ستر میں بنگال میں “بھولا” طوفان آیا جو تاریخ کا بدترین طوفان تھا۔ لاکھوں بنگالی لقمہ اجل بنے مگر پاکستانی حکومت کی ناقص کوششوں اور سست رو کاروائی نے بنگالیوں کے دل میں نفرت کی شدید ضرب لگائی اور حالات مزید خراب ہو گئے جب ہندوستان نے پاکستان سے زیادہ امداد کی)
  • جمہوریت کا بدترین قتل: مجیب الرحمن کو حکومت دینے کی بجائے ایک بدتر خنزیر تیرن جرنل یحی کو مسلط کر دیا
  • سقوطِ ڈھاکہ
    (سقوطِ ڈھاکہ ایک ایسا معمہ ہے جسے حال ہی میں پاکستان کے ریٹائر ہونے والے coas قمرجاوید باجوہ نے فوجی ناکامی کی بجائے سیاسی ناکامی قرار دیا۔ میں انکی بات سے متفق نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ فوجی ناکامی تھی۔ سقوطِ ڈھاکہ ایک collective   collapse تھا جس میں ہماری تمام تر سیاسی، عسکری، مذہبی ، تھینک ٹینک سب کا سب بری طرح ناکام ہوا: مزید پڑھیۓ اس پر میرا تبصرہ یہاں)
  • امریکہ کے حکم پر بھٹو کا عدالتی قتل
    (سقوطِ ڈھاکہ کا ایک اہم مرکزی کردار بھٹو تھا، مگر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو ہی سب سے بڑا سیاسی نطق لیکر پاکستان کا سربراہ بنا اور ایک مضبوط ریاست بنانے کے لیے اپنی اہم توجہ ایٹمی پروگرام پر مرکوز کر دی، ساتھ ہی اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بھٹو عوام میں زبردست حد تک مقبول تھا، اور یہ امریکہ کے لیے یکدم ایک بہت بڑاخطرہ بن گیا۔ بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لیے ضیاالحق کا انتخاب کیا۔ جس قتل میں بھٹو کو سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا دلوائی بھٹو کے اس میں ملوث ہونے کا دور دور تک کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔یہ عدالتی انصاف کا بدترین قتل تھا اور اسکے بعد پاکستانی عدالتی نظام انسانی کائنات کا خنزیر ترین نظام میں ڈھلتا چلا گیا، جسکے اثرات آج عروج پر ہیں)
  • مجاہدین کا قیام
    ـ(افغانستان مٰن روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے امریکہ کو ایک چونچلے کی ضرورت تھی۔ وہ چونچلہ سعودی عرب کے ایک بزنس میں اوسامہ بن لادن کی سی آئی اے میں تربیت سے شروع ہوا اور امریکہ اسلحہ اور سعودی ریالوں کی بارش میں جنرل ضیا کے مذہبی اور عسکری حلقوں کی تربیت میں مجاہدین کی صورت معرضِ وجود میں آیا۔ یوں مجاہدین وہ  ”ہیرو” تھے جو افغانیوں کے لیے روس سے لڑے۔ مجاہدین نے امریکی اسلحے، سعودی ریالوں اور پاکستان فوجی تربیت سے روسیوں کو ہزیمت تو دی اور واپس جانے پر مجبور تو کیا مگر ساتھ ہی پاکستان کے لیے مستقبل میں طالبان کے صورت میں ایک ایسا ناسور پیدا کر دیا جس نے پاکستان کو تادمِ تحریر دہشتگردی کی بد ترین صورتحال میں ملوث رکھا ہوا ہے)
  • نظامِ مصطفیٰ کے نام پر دین کو مذاق بنانا
    (جنرل ضیا نے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے نظامِ مصطفیٰ کے اجرا کا شوشا چھوڑا۔ یوں تاریخ میں پہلی بار تمام مذاہب کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے نظامِ مصطفیٰ کے نفاذ پر کام کرنے کو کہا۔شریعت کورٹ بناکر اس پر اپنی مرضی کے علما مسلط کر دئیے۔  مگر ساتھ ہی علما کو 4 شعبوں سے دور رہنے کا حکومت دیا: ان میں ایک عائلی قوانین جو قادیانیوں نے ایوب کے دور میں بنوائے تھے ان کو نہیں چھیڑ سکتے ۔۔۔ یوں یہ نظامِ مصطفی کی تکرار ایک شوشے سے زیادہ نہ بن پائی) 
  • مذہبی میں انتہا پسندی کے عروج کو ہوا دینا
    (آج پاکستان میں جو مذہبی انتہاپسندی عروج پر ہے اسکی ابتدا ضیاالحق دور میں عروج پائی۔ اور ضیاالحق نے امریکہ پر یہ باور کرنے کے لیے کہ اسکی حکومت محظ ایک عسکری ڈکٹیٹرشپ نہیں اس میں عوام عناصر بھی موجود ہیں اس نے دین کا بھرپور ٹیکا لگایا)
  • اوجھڑی کیمپ کا واقعہ
  • الطاف حسین کی تشکیل
  • شاہنواز بھٹو اور میرمرتضیٰ بھٹو کا قتل
  • انسانی تاریخ کے خنزیرترین سیاسی دماغ نوازشریف کو سیاست میں مسلط کرنا اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا
    (ضیاالحق نے پنجاب کو اپنے پنجوں میں مضبوطی سے جکڑنے کے لیے نوازشریف کو سڑکوں سے اٹھا کر پنجاب کا وزیرخزانہ لگا دیا۔ نوازشریف کے خاندان کا اس وقت تک لاہور میں کافی اثرورسوخ تھا جو اس نے خوب استعمال کیا۔ جب تک ضیاالحق زندہ رہا نوازشریف اسکی جوتیاں چاٹتا رہا اور “ہرملنے والی وزارت سے فائدہ اٹھاتا رہا”۔۔۔ پھر 1988 میں ضیاالحق کے حادثے میں انتقال کے بعد پہلے انتخابات مین مسلم لیگ ہی کے پرچم تلے انتخابات لڑے مگر مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی۔ اسکے بعد نوازشریف نے مسلم لیگ میں دھڑے بازیاں شروع کیں اور سازشوں سے اس لیگ کو توڑ کر اپنی الگ پارٹی مسلم لیگ ن کے نام سے بنیاد رکھی۔ مگرنوازشریف جان چکا تھا کہ بے نظیر عوام کی مقبول ترین لیڈر ہے اور اسکو ہرانا ممکن نہیں ہو گا تو اس نے اس خوف سے کہ اسکی نئی پارٹی کے لوگ کہیں بے نظیر کے پاس نہ چلے جائیں چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤسز، مری کے ہوٹلوں اور دوسری پرتعیش جگہوں پر اپنے ممبران اور بیوکریسی کے دوسرے لوگوں کا ضمیر خریدنا شروع کر دیا ہے۔ پیسے اور عورت کے وجود کا بے تحاشہ استعمال ہوا۔ پورن فلمیں بنی جو آج تک نون گینگ کی سیاست میں استعمال ہو رہی ہیں)
  • بے نظیر کی حکومت کو متزلزل کرا کے نوازشریف کو مسلط کرانا
    ـ(1988 میں بے نظیر کی حکومت سے لیکر 1997 تک اسٹیبلشمنٹ نے کبھی نون گینگ اور کبھی بی بی کی پشت پناہی کرتے ہوئے سیاست میں “اب ہم اب تم” کی سیاست شروع کی)
  • پھر ان دونوں کے ایک دوسرے کے خلاف لڑانا
  • طیارہ سازش کیس
    (پھر جب دیکھا کہ نوازشریف ہاتھوں سے نکل رہا ہے تو اسکے خلاف طیارہ سازش کیس میں اسکی حکومت کا تختہ الٹ دیا)
  • نوازشریف کو پھانسی کی بجائے ڈھیلیں اور این آر او دلوانا
    (فوجی ڈکٹیٹر مشرف نے احتساب پر کڑا زور دیا مگر پاکستان کی تاریخ کے خنزیرترین سیاستدان نوازشریف کو پھانسی دینے کی بجائے این آر او دیا جس نے پاکستان کی بنیادوں کو بری طرح کمزور کیا اور سیاست میں ایک ایسی غلاظت کا وجود رکھا کہ کوئی کسی کا احتساب نہیں کر سکے گا)
  • پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں ملوث کرنا جس نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا اور ابھی تک اسکے اثرات موجود ہیں
    (جس طرح روس کیخلاف ضیاالحق نے امریکہ اور سعودیہ کے ساتھ ملک مجاہدین کو تشکیل دیا اب امریکہ انہی مجاہدین جو اب طالبان بن چکے تھے، اور جنکا سربراہ وہی سی آئی اے کا ایجنٹ اوسامہ بن لادن تھا، اب اسکو ختم کرنے کے لیے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ مشرف ایک ایسی صورتحال  میں تھا کہ اگر وہ اس امریکہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو شاید پاکستان بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آ جاتا کیونکہ ہمارا جنم جنم کا دشمن ملک بھارت ہر ممکن طور پر امریکہ کو اس پر رضامند کرنے کی کوشش میں تھا کہ پاکستان پر بھی حملہ کرے۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاکستان کو ایسا نقصان ہوا ہے جو آج تک اپنا اثر دکھا رہا ہے)
  • بے نظیر کا قتل
    (کہنے والے کہتے ہیں بے نظیر کا قتل مشرف نے کروایا ہے۔ میری سیاسی بصیرت اسکو ماننے سے مکمل طو پر انکار کرتی ہے۔ بے نظیر کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرف تمام جانب سے عتاب سے گزررہا تھا۔ اس کے لیے کوئی بھی غلط قدم اٹھانا بہت برا ہوتا۔ لہٰذا اتنا بڑا قتل اسکے لیے حرفِ آخر ہوتا۔ ساتھ ہی ان حالات کو مدِنظر رکھنا چاہیے کہ بے نظیر کا قتل کس مقام پر ہوا ہے: راولپنڈی کے اس مقام پر جو فوج کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر مشرف کو بے نظیر کا قتل ہی کرانا ہوتا تو وہ کم از کم اس جگہ کا انتخاب ہرگز نہ کرتاجبکہ بے نظیر کا قافلہ تقریباً سارا پنجاب گھوم پھر کر اپنی آخری حدود تک پہنچ رہا تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس جیپ میں بے نظیر بیٹھی ہوئی تھی وہ بلٹ پروف تھی۔ اور تمام راستے میں بے نے اس جیب سے باہرقدم نہیں نکالا۔ اس جیب کی چھت پر خاص کر ایک سوراخ کرایا گیا تھاتاکہ بے نظیر اس سے نکل کر اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلا کر جواب دیتی مگر یہ چھت سارے پنجاب بند رہی اور عین اس وقت جب وہ اس علاقے میں داخل ہوئی اسے اٹھ کر باہر نکلنے کا مشورہ دیا گیا۔ عین اسی وقت ایک بندہ جیب پر سوار ہوا جس نے بے نظیر کو گولی ماری۔ ایسا سستا کھیل فوج نہیں کھیلتی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ صرف ایک بندہ کو تھا: آصف علی زردای!!!! زرداریوں نے بھٹوؤں کی سیاسی بساط پر قبضہ جمانے کے لیے بہت پہلے کا کھیل کھیلا ہوا تھا۔ دعابھٹو کے مطابق اسکے باپ اور چچے کے قاتل زرداری ہیں۔ اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے اس کھیل کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ زرداری ہی نے بے نظیر کا قتل کروایا۔ اگر بے نظیر قتل نہ ہوتئ تو زرداری کی اوقات آج بھی اس کتے سے زیادہ نہ ہوتی جو مالک کے پاؤں کے ساتھ چمٹ کر اپنا وجود کے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔سیاست میں فائدہ دیکھا جاتا ہےنقصان نہیں اور زرداری سے بڑا شاطر انسان کوئی نہیں!
  • عدلیہ پر ہاتھ ڈالنا
  • بگتی کا قتل
  • لال مسجد کا واقعہ
    (اوپر کے تینوں واقعات یعنی عدلیہ پر ہاتھ ڈالنا، بگتی کا قتل اور لال مسجد کا واقعہ۔۔ میں ان تینوں میں مشرف کا زبردست حامی ہوں۔ پاکستانی عدلیہ انسانی کائنات کی خنزیر ترین عدلیہ ہے۔ مشرف نے ان کرپٹ ججز پر ہاتھ ڈالا جو اسکا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ چوہدری افتخار ایک انتہائی غلیظ اور منافق چیف جسٹس تھا۔ زبردست بے ایمان، اور امیروں کا دلال۔ عدلیہ پر نون گینگ نے زبردست شہرت کمائی اور ان منافق ججز کی بحالی کے لیے لانگ مارچز کیے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013 کے انتخابات میں چوہدری افتخار کی سرپرستی اور اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے زبردست دھاندلی کرائی گی اور عمران کو جیتے ہوئے الیکشن میں شکست دلائی۔ بگتی ریاست پاکستان کے خطرہ تھا، اس نے اپنے غنڈے پال رکھے تھے جو پاکستان کی عمارات کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے خلاف کام کرنے میں مصرف تھا۔ اس کا بیٹا ہندوستان چلا گیا اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کام کرتا رھا۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ نامعلوم افراد کے نام پر بہت سارے انسانوں کا قتل کرانے میں انہیں لاپتہ کرنے میں بھی فوج ملوث رہی ہے۔ 
  • 2013 کے الیکش کو بدترین دھاندلی سے بدلوانے میں مدد دی
  • پشاور پبلک آرمی کا واقعہ
    (کہتے ہیں کہ پشاور میں پبلک آرمی اسکول میں 150 معصوم بچوں کا بھیانک قتل طالبان نے کیا تھا۔ مٰیں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ اس دور اور ان حالات کی بات ہے جب 2013 کے انتخابات میں شدید ترین دھاندلی ثابت ہونے جانے باوجود نوازشریف کی حکومت انصاف کرنے کے حق میں نہیں تھی اور عمران خان کے 127 دن کے دھرنے نے حکومت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس وقت حکومت ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ کو ایک ٹرننگ پوائنٹ کی ضرورت تھی۔ وہ ٹرننگ پوائنٹ اس دہشتگردی کی صورت میں انکے ہاتھ لگا۔ تمامتر حالات کو سمجھنے کے بعد میرا دعویٰ ہے کہ یہ بھیانک ترین واقعہ بھی اس وقت کی حکومت اور انکی سرپرستی کرنے والوں کی ایما پر ہوا)
  • عمران خان کی حکومت کو امریکہ کے حکم پر گرانا
    (عالمی سطح کے مبصرین اور مشاہدین کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن 2018 کے تھے جب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی۔ مگر ان الیکشن میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے زبردست دھاندلی ہوئی اوران بے شمار سیٹوں پر جہاں پی ٹی آئی رات تک جیت رہی تھی صبح وہاں انہیں حیرت ناک طور پر شکست ہو گئی۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ اسٹیبلشمٹ کسی بھی طور عمران خان کو فل مجورٹی نہیں دلوانا چاہتی تھی۔ اگر عمران خان کے پاس کل پاوور ہوتی تو وہ اس فرسودہ نظام، اسکی آبیاری کرنے والے کرپٹ ترین سیاستدان، دونوں کرپٹ پارٹیوں یعنی نون گینگ اور زرداری گینگ کے لیے ، عدلیہ کے لیے، بیوکریسی کے لیے اور خود فوج کے لیے خطرہ ہوتی۔ لہذا اسے مجبور کر دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرے جو اسی خنزیر سیاسی نظام کر حصہ تھیں اور جو خود کرپٹ تھیں۔ مگر اسکے باوجود عمران خان نے ان مافیاز پر ہاتھ ڈالا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکا بہترین ترین دوست جہانگیرترین جو بذاتِ خود شوگر مافیا کا حصہ تھا، وہ اس سے الگ ہو گا اور اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے کئی ایک ممبر لے گیا۔ اسکے باوجود عمران خان نے ہمت نہ ہاری اور امریکہ اور عربوں  سے پنگا لے کر روس کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہا – ایک بار پھر پاکستان میں بھٹو کے بعد ایک ایسا لیڈر پیدا ہوا جسے امریکہ نے اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور اسے فوج کی سرپرستی میں ایک خنزیر ترین اور ناجائز طور پر ختم  کرا کے انہیں خنزیروں کو اس ملک پر مسلط کرادیا جنہیں عوام انتخابات میں دھتکار چکی تھی۔ 
  • اور پھر تسلیم کر لینا کہ فوج سیاست میں ملوث رہی ہے، جسکا انکار فوج ہمیشہ کرتی رہی تھی!
    (جنرل باجوہ جس کے سر یہ تہمت جاتی ہے کہ اس نے اس خنزیر کھیل کو کھیلنے کی اجازت دی اور اسکی سرپرستی کی، نے اپنی الوداعی تقریر میں تسلیم کیا کہ فوج پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کرتی رہی ہے اور فروری 2022 میں فیصلہ کیا کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کریگی۔ ساتھ ہی اپنے جانشین  جنرل عاصم منیر احمد کو تاکید کردی کہ سیاسی معاملات میں دخل کرنا غداری ہے۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز اور شدید منافقت سے بھرا ہوا بیان ہے۔ اول تو یہ کہ فوج اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کی سیاسی نظام میں دخل اندازی کر کے پاکستان کے نظام کر تباہ کیا ہے اور اپنی من مانی کے مطابق چلایا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کر گندا کرنے والی درحقیقت فوج ہی ہے۔ اور اب انہوں نے اس گناہ سے توبہ کر لی ہے!!!!!
    دوسرا یہ کہ اگر یہ غداری ہے تو پچھلے 75 سالوں سے جو غداری فوج کرتی چلی آئی ہے اسکا حساب کون دیگا؟ سقوطِ ڈھاکہ کا حساب کون دیگا؟ بار بار سول حکومتوں کو گرانے کا حساب کون دیگا؟

پاکستان کی آزادی کے 75 میں سے کم و بیش 64 سال تک پاکستان میں تین قوتوں کی حکومت رہی ہے: فوجِ، پی پی پی اور نون لیگ! پی پی پی اور نون لیگ بھی فوج ہی کے سیاسی تخم کی پیداوریں ہیں۔ بھٹو جنرل ایوب کا لاڈلا تھا! نوازشریف جنرل ضیا کا لاڈلا تھا!  اس لحاظ سے پاکستان میں فوجی سیاست ہی حکمرانی کرتی رہی ہے۔ 64 سالوں میں ان تین بڑے خنزیروں نے پاکستان کو دن رات کمزور کیا، پاکستان کے خزانے کو لوٹا اور پاکستانی عوام کو ذلت اور رسوائی کی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ آج ہمارا معاشرہ ایک انتہائی کھوکھلا اور بے جان معاشرہ ہے جہاں جس کی کچھ اپروچ ہے وہ ہر بند سے آزاد ہے۔ وہ ہر جائز ناجائز طو پر اپنے مفادات حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کو اس بات کی رتی برابرپرواہ نہیں کہ یہ حلال ہے کہ حرام! کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب تک عدالتیں موجود ہیں جو انصاف کے تقاضے انسان کی جیب کا سائز دیکھ کر کرتے ہیں، جب تک اس ملک میں کرپٹ خنزیر سیاست ، عدالت، شجاعت پر برجمان ہیں، جو خود کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں اسوقت تک اس کرپٹ معاشرے میں کوئی ان پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک اس ملک کی پارلیمنٹ میں ملک کی تاریخ کے بدترین بدمعاش، چور، ڈاکو، لٹیرے اور کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں وہ اس نظام کو کچھ نہیں ہونے دیتے۔ اس نظام میں جس میں ملک کا چیف آف آرمی اسٹاف کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کے اثاثوں کا جوابدہ نہیں ہوں، جس نظام میں ملک کی دو کرپٹ ترین سیاسی جماعتوں کے سربراہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیویوں بیٹیوں بہوؤں کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں اس ملک میں کس کی جرأ ت ہے کہ وہ کسی کا احتساب کر سکے؟ وہ عدالتیں احتساب کریں گی جس کا چیف جسٹس بھی یہی کہتا ہے کہ میں اپنی بہو، اپنی بیوی کی جائدادوں کا جوابدہ نہیں ہوں؟

حالات یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو مفلوج کرنے میں ان تین خنزیروں (پاکستانی فوج، پی پی پی اور نون لیگ) کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ کام کر رہا ہے۔ ملک میں تعلیم معیار اسقدر بدحالی کا شکار ہے کہ تعلیم حاصل کرنا بوجھ سمجھا جاتا ہے ، غریب غربأ تو شاید علم حاصل کرنے سے کترانے لگے ہیں کہ جب پڑھ لکھ کر بھی بدحالی کا شکار رہنا ہے تو بہتر ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے اپنے دھندے میں لگا دیا جائے۔ اسقدر تعلیمی بدحالی ان تینوں خنزیروں کو اس لیے راس ہے کہ انکے بچے یورپ میں تعلیم حاصل کر کے اسی عوام پر سیاست کرتے ہیں اور پاکستانی فوج ان کو پروٹیکشن دیتی ہے۔ پی پی پی اور نون گینگ اس نظام میں جرائم کا بیج بوتے ہیں اور پاکستانی فوج انکے گناہوں پر انکی پشت پناہی کرتی ہے۔ یہ ایک بھیانک تکون ہے جس نے پاکستانی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی فوج کے خلاف بولو تو امن سکون خطرے میں ہے، کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف بات کرو تو جمہوریت خطرے میں ہے، علماؤں کے خلاف بات کرو تو اسلام خطرے میں ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نظام تباہ کیا گیا ہے!

میں اکثر یہ جملہ کہتا ہوں کہ اس معاشرے کی بنیادی اینٹیں ٹہڑی رکھی گئی ہیں، اب آسمان تک یہ دیوار ٹہڑی ہی بنے گی! وہی ہو رہا ہے۔ جو بندہ اس نظام کو بدلنا چاہتا ہے وہ آج اس ملک کا سب سے بڑا مجرم ہے اور جو مجرم ہیں وہ محاسب ہیں!!!

عام پاکستان اپنی سفیدپوشی میں رہتے ہوئے قیامت کا انتظار کرے!

 Chief of Army Staff (Pakistan), Asim Munir, General Qamar Javed Bajwa, Raheel Sharif, Pervez Musharraf, Imran Khan, Nawaz Sharif, Zardari, PTI, Muslim League N, PPP

بقلم: مسعود

SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW