Uncategorized

ایک ہوں مسلم

ایک ہوں مسلم

ایک ہوں مسلم!

علامہ محمد اقبال کا یہ خواب جس قدر اہمیت کا حامل آج سے کوئی سوسال پہلے تھا، اس سے کئی گنا زیادہ اہمیت کا حامل دورِ حاضر میں ہے!

اقبال نے برٹش انڈیا میں جنم لیا جو کبھی سطوتِ اسلام کا زبردست مظہر تھا مگر اب بدترین غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ ایک ایسی غلامی جس میں مسلمان کی شناخت تک مسخ کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی۔ مغربی دنیامیں رہ کر، وہاں علم حاصل کر کے اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اورپھر    اپنے سامنے سلطنتِ عثمانیہ کے بکھرتے ہوئے شیرازے کو دیکھکر اس مستقبل شناس نگاہ نے بھانپ لیا تھا کہ آنے والا دور امتِ مسلمہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا! انہوں نے اپنی ولولہ انگیزشاعری سے امتِ مسلمہ کو آنے والے خطروں اور ان سے نبٹنے کا اشارہ دیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اہلِ مغرب کی جان شکنجۂ یہود میں ہے،  یہی وہ شکنجۂ یہود ہے جو آنے والے مستقبل میں اھلِ حرم کے لیے بارود ثابت ہوگا – وہی ہوا کہ اہلِ حرم نے جرمنی سے لٹے پٹۓ بچے کھچے یہودیوں کو ارضِ مقدس میں جگہ دی اور آج وہ خودارضِ مقدس سے بیدخل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں!   

ایک ہوں مسلم

اور یہودیوں کا پنجہ اسقدرمضبوط تر ہو چکا ہے کہ انکے سامنے امتِ مسلمہ بے بس نظرآرہے ہیں!

موجودہ دور کی امتِ مسلمہ اقبال کے دور کی امتِ مسلمہ سے دولت و ثروت میں شاید کئی گنا زیادہ خوشحال ہو گی، وسائل بھی کم نہیں، ہنرو فن کا سلیقہ بھی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی تعداد میں مسلمان سمندر کی جھاگ سے بھی کمتراوربے توقیر ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس وقت اہلِ اسلام سب سے زیادہ زیرِِ عتاب اور ظلم و جبر کا شکار ہیں؟ رجہ ہم سب جانتے ہیں! وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کے پیغام پر عمل کرنا چھوڑ کر عقائد کو دین بنا لیا ہے! ہم مسلمان ہونے کی بجائےعقائدپرست ہوچکے ہیں۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ آج سے کم و بیش ڈیڑھ سوسال پہلے نہ کوئی وہابی تھا، نہ کوئی بریلوی تھا، نہ کوئی دیوبندی تھااور نہ ہی کوئی قادیانی تھا!

ہمارے پاس اس بات کاعلم بھی نہیں کہ شیعہ اور سنی کا تفرقہ کب وقوع پذیر ہوا!  ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم

شایدیہی وہ بات ہے جو اقبال بھی پوچھنا چاہ رہے تھے کہ ” یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو – تم سبھی کچھ ہوبتاؤ تو مسلمان بھی ہو”؟

درحقیقت کفار یہ بات بھانپ چکے تھے کہ امتِ مسلمہ کو کمزور، غیرفعال اور ناقص کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ان میں فتنے ڈال کر ان فتنوں کو ہوا دو!  یہی ہوا کہ ایران میں بہائی فتنے کو ہوا دی گئی اور ہندوستان میں انگریزوں کے نسل پرست غلام ، غلام احمدقادیانی کو سرکاری سرپرستی میں ہوا دی گئی۔مسلمانوں نے اپنے روایتی انداز میں اس فتنے کو مزید تقویت پہنچائی اور یہ فتنہ آج ایک ایساتناوردرخت بن چکا ہے کہ مغرب میں انکی بات کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ادھر سنییوں اور شیعیوں کے اندرونی فرقات نے اسلام کے ساتھ گھنواؤنا مذاق کیا اور اسلام کی اصل روح کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ اسطرح کہ قرآن کا علم پسِ پردہ چلا گیا اور غیریقینی اور غیرقرآنی باتوں پر دین کے ستون بلند ہونے لگے۔  ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم ایک ہوں مسلم

نتیجہ یہ نکلا کہ ان فرقوں کاپلا ہوا مسلمان آج جب قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ الجھن کا شکار ہوجاتا ہے کہ جن باتوں پر اسکے دین کی تعمیر ہوئی قرآن اور صحیح احادیث اسکے متضاد ہیں! پھر بات یہ کہہ کر ختم کر دی جاتی ہے کہ بندہ قرآن و حدیث کو سمجھ ہی نہیں سکتا لہذا وہ جس فرقے سے وابستہ ہے اسے سے جڑا رہے! اور یہی وہ بات ہے جس پر کفار ضربکاری کرتے ہیں کہ کہیں آج کا مسلم قرآن کو مضبوطی سے تھام نہ لے! قرآن کو مضبوطی سے تھام لینے کا مطلب ہے کہ مسلمان ایک ہوجائیں اور اگر مسلمان ایک ہو گئے تو مغرب نے جو اپنے عالیشان تمادن کے محل بنائے ہوئے وہ کہیں پاش نہ ہوجائیں۔

یہاں یہ بات اچھی طرح کان گزار کر لیجیے کہ مغرب میں ہمارے مساجد میں نمازیں پڑھنے، رٹے لگا کر قرآن حفظ کرنے، روزے رکھنے، حلال کھانے سے کوئی غرض نہیں۔ بلکہ وہ اسکی مکمل آزادی کیساتھ اجازت دیں گے، مگر جو بات اہلِ کفار عموماً اور اہلِ مغرب خصوصاً جن میں یہودونصاریٰ شامل ہیں قبول نہیں وہ یہ ہے کہ کہیں اسلام کا نظام نافذ نہ ہوجائے۔ اگر کہیں بھی دنیا میں اسلام کا نظام نافذ ہوگیا دنیا اس سے مرغوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ اور اسلامی نظام ہی وہ نظام ہے جس میں انسانیت کے ہردکھ دردکا مداوا  اورتمامتر معاشی، سماجی اور اخاقی مسائل کا حل ہے۔ مغرب کو خوف ہے کہ اسلامی نظام انکے اس سرمایہ داری نظام جسکی بنیاد ہی یہود کی رکھی ہوئی ہے اور جس میں بینکاری نظام بنیاد اور جسکی بنیاد سودداری نظام ہے اور جس پر انکا captalistic نظام چل رہا ہے ، پاش پاش نہ ہوجائے۔اسی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم حصہ مغرب کے اسلحہ بنانے کے کارخانے اور ان پر کھربوں ڈالرز کا سرمایہ ہے ۔ اس امن ہوگا تو یہ سرمایہ دار اپنا اسلحہ کسکو بیچیں گے؟ لہذا وہ کہیں نہ کہیں ایسی conflicts کو زندہ رکھتے ہیں جہاں اسلحہ بیچا جاسکے – بدقسمتی سے اس انتشار کی مرکز امتِ مسلمہ کو بنادیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب امتِ مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان پر مزید تیل چھڑکتا ہے اور وہ اسلامی  شریعت کو ایک خوفناک دیو بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ 

یہ وہ کلیدی باتیں ہیں جنکی بنا پر اہلِ اسلام کو کمزور اور غیرفعال بنانے کی کوشش میں ہر ممکنہ کاروائی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں ہی کے روپ میں ایسے شیطان چھوڑ دئیے جاتے ہیں جو اسلام کی روح کو مسخ کرکے عقائد کی بھرمار کو ہوادیتے ہیں، فتنوں کو ہوا دی جاتی ہے اور پھر اس پر قتل وغارت کے فتوے جاری و ساری کردیتے ہیں۔سیاسی طور پر بھی وہ اپنی اپنی پسند کے شیطانوں کو سیاستدان بناکر مسلم امہ میں شامل کردیتے ہیں جو اپنے مغربی آقاؤں کے مقاصد کیساتھ ساتھ اپنے آپ کو تقویت پہنچانے اور مسلمانوں میں افراتفری پھیلانے میں کام آتے ہیں۔ادھر وہ اپنے ممالک میں آزادئ اظہار کے پسِ پردہ توھینِ رسالت کے فتنے چھوڑدیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں ایسے میں مسلمان افراتفری کا شکارہونگے اور جب مسلمانوں میں انتشار پھیلتا ہے تو انکی پراپوگنڈا مشینیں کام کرنا شروع کر دیتی ہیں کہ مسلمان دہشتگرد ہیں لہذا انکے خلاف فوجی و عسکری کاروائی کرنا جائز ہے! الغرض دنیا کے مختلف ممالک میں مسلم کش کاروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور مسلم امہ خارجی طور پر خاموش تماشائی کی طرح دیکھتی رہ جاتی ہے اور داخلی طور پر ہمارے جیسے جاھل ملک کی عوام کی صورت میں اپنے ہی ملک میں بدترین دھشتگردی کرنے لگتی ہے، جس پر مغرب کے مقاصدپورا ہونے لگتے ہے۔

گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد سے اسلام کو جس بھیانک طورپر پیش کیا گیا ہے اور نے اسلامی قدروں کو بری طرح مجروح کیا ہے اور خاص کر اس میں خود مسلمانوں کے عمل کا بہت اہم ہاتھ رہا ہے! امتِ مسلمہ میں کہیں بھی اس پراپوگنڈے کو بہترطورپر سامنے کرنے کی سعی نہیں کی گئی! بلکہ امتِ مسلمہ ایک defensive اور passive رول میں نظر آتی ہوئی نظرآئی ہے!  گنتی کے چند ایک مسلم آئمہ اور مفکرین نے اسلام کو درست طور پر پیش کیا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں انکے ممالک سے دربدرہونا پڑا اور انکے ٹی وی چینلز یورپ میں بند کردئےگئے۔جبکہ اکثر ممالک کی سیاسی و عسکری قوت بے بس، لاچار، مفلوج اور غیرفعال رہی اور ابھی تک ہے!

‘ایک ہوں مسلم’ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے! مگر اس عقائدپرستگی اور فرقہ واریت کے دور میں یہ خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا؟ اسکا حل بھی اقبال آج سے ایک سوسال پہلے بتا گئے تھے:  اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ رکھ         –         خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی 

فرقوں کے ناسور کا جو بیج بویاجاچکا ہے اسکو جڑسے اکھاڑکرابھی پھینکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ کیونکہ جوملا بذاتِ خود فرقوں میں پلے ہوں وہ نہ خود کسی کی بات پر قائل ہونگے نہ کسی کو قائل کرپائیں گے۔ انکے پاس کہیں نہ کہیں سے کسی نا کسی کتاب سے کوئی نہ کوئی روایت موجود ہوگی جو انکی وہ بات جسکووہ مانتے ہیں، تقویت پہنچاتی ہوگی۔ ایسے میں وہ سب سے اہم بات بھول جاتے ہیں کہ قرآن کو انہوں نے پسِ پردہ ڈال دیا۔ لہذابہتر یہی ہوگا کہ فی الحال انکو انکے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ صرف ایک بات دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان اپنا نصب العین بنا لیں کہ کسی بھی مسلمان کی عزت، جان اور مال اسکے لیے مقدس ہے!  اگرکسی بھی ملک میں کسی بھی مسلمان پر ظلم و ستم ہوتا ہے تو تمام دنیا کے مسلم اور خاص کر وہ 58 ممالک جو اسلامی ہیں وہ اپنی فوجیں انکے تحفظ کے لیے دوڑا دیں گے۔ صرف اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی خوشنودی کیلیے “آل فار ون اینڈ ون فار آل” کی پالیسی پر عمل کریں گے چاھیں اسکے لیے کتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے۔اقبال نے اسے یوں بیان کیا ہے کہ کی محمدﷺ سے وفا تو نے!

فقط اور فقط محمدﷺ سے وفاکو اپنا نصب العین بنالیں! اسکے جواب میں جو بھی تکلیف آئے اسے برداشت کریں اور مقابلہ کریں اس امید سے کہ محمدﷺ سے وفا اللہ سے وفا ہے اور اللہ سے وفا کامیابی اور نصرت ہے – ایسے پہلے ہوچکا ہے اب کیوں نہ ہوگا؟

گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد افغانستان پر اتحادیوں کے 80 ممالک کے تجدیدترین اسلحہ سے مزین فوجوں کا ناکام ترین حملہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہونا چاہیے کہ اسلحہ ہر جنگ نہیں جیتتا اور مسلمانوں میں آج بھی وہ جذبہ ہے جو ان کا کھل کر مقابلہ کرسکتا ہے! پھرجب 58 ممالک کی فوج اللہ اکبر کے نعرے تلے ایک اسلامی پرچم تلے جمع ہوگی تو میراایمان ہے کہ اللہ کی نصرت بھی ہمارے حال میں شامل ہو جائے گی اور دشمن کے سینے میں وہی خوف پیدا ہوگا جو عمرِ فاروق کے دور میں تھا!

مگر اسکے لیے وہ ایمان پیدا کرناہوگا جسکا ذکر اقبال نے کیا ہے کہ :   آج بھی ہوجوبراہیم کا ایماں پیدا    – آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا!

تمام مسلم ممالک ملکر ایک واحدانیت پیدا کریں جسکی اساس قرآن اور فقظ قرآن پر مبنی ہونی چاہیے۔ امتِ مسلمہ کی ایک شریعت ہونی چاہیے، ایک زبان ہونی چاہیے جوکہ عربی ہو ۔ اسکے بعد جب امت کا ہرفرد قرآن کو خود سے سمجھنے لگے تو فرقوں کا قلع قمع کرنا قطعی مشکل نہیں ہوگا۔ بلکہ اسکے لیے اگر طاقت کا استعمال درکارہوتوکیا جائے کیونکہ اسلامی کی ابتدائی قوتوں میں چاہے وہ خلافتِ راشدہ تھی، خلافتِ امیہ تھی، خلافتِ عباسیہ تھی یا خلافتِ عثمانیہ تھی جہاں جہاں کسی فتنے کو دبانے کی ضرورت پڑی طاقت کا استعمال کیا گیا! 

ہمارا ایک خلیفہ ہونا چاہیے! لازمی نہیں کہ ہم چودہ سوسال پہلے والی خلافت ہی قائم کریں۔ نہیں! بدلتے ہوئے وقت کیساتھ ضروری ہے کہ ہم خلافتِ راشدہ کی بنیادوں پر ایک جدید خلافت کی بنیاد رکھیں۔ جس میں دورِ حاضر کے تقاضوں کو مدنظررکھ کر امتِ مسلمہ کی نمائندگی کی جائے۔ ٹکے ٹکے کے ملاؤں اور مفتیوں سے جہاد اور قتل کا فتویٰ اٹھاکرخلیفۂ وقت کو دیا جائے اور ہر مسلمان کی جان مال اور عزت کی حفاظت کا عہدنامہ لیاجائے۔جہاد تمام مسلمان مردوں پر فرض کردیا جائے کہ بوقتِ ضرورت خلیفۂ وقت جہاد کے لیے بلائے تو اپنی عسکری طاقت کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ اپنے تمام تر مفادات کو بلائے طاق رکھ کر ایک ایسا اتفاق قائم کیا جائے جو صرف اور صرف امتِ مسلمہ کے تحفظ کے لیے ہو! 


بقلم: مسعود

SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW