Politics

Saqoot e Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part V

Saqoot e Dhaka - Kyun aur Kaisey? Part V

سقوطِ ڈھاکہ کے چند کردار اور انکا انجام


Saqoot e Dhaka

شیخ مجیب الرحمٰن:

شیخ مجیب الرحمٰن کو اسکی اپنی فوج نے اُسکے اپنے خاندان کے 18 افراد سمیت جن میں 10 سالہ بیٹا بھی تھا!، گولیوں سے بھون دیا۔  صرف شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ بچیں جو اس وقت جرمنی میں تھیں۔! یہ بھی کامل یقین سے کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب کو بھارت نے مروایا تھا۔    Saqoot e Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part V

تاج الدین:

تاج الدین احمد، سیدنذرالاسلام، منصور علی اور قمر الزماں سن ساٹھ کی آخری سالوں میں بھارت سے مدد مانگنے گئے تھے! اور بھارتی سرحدی گاؤں مجیب نگر میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا،! ان کو ملک دشمن سازش کے الزام میں گرفتار کر کے ایک ہی کوٹھڑی میں جمع کر کے گولی مار دی گئی۔! حالات کے مطابق یہ بھی قتل بھارت نے کروائے تاکہ انکے سینوں میں چھپے راز کہیں اگل نہ پڑیں۔!

جنرل ضیاالرحمن؟

1977 سے 1981 تک بنگلہ دیش کے صدر رہے! مگر  مئی 1981 میں چٹاگانگ میں میں قتل کر دیا گیا۔! تاریخدانوں کے مطابق جنرل ضیا الرحمنٰ کئی گھنٹے برآمدے کے فرش پر مردہ پڑا رھا۔! ذاتی معالج سمیت کئی سینئر سول و پولیس کے لوگوں نے انکی لاش کو دیکھ کر بھی پڑا رہنے دیا۔! ان کا  24 سالہ بیٹا موت کے ہاتھوں چلا گیا  اور ایک دوسرا بیٹا لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رھا ہے۔!

ذوالفقارعلی بھٹو:

بھٹو کو 1956 میں کیبنٹ میں لیا گیا تھا اور پاکستان کے نوجوان ترین ممبر تھے جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کی۔ جنرل ایوب کوبھٹو سے خاص لگاؤ تھا اور انہیں اعلی عہدوں پر فائز رکھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے ایک اہم کردار تھے اور انکی اپنی طاقت کی ہوس بھی سقوطِ ڈھاکہ کی ایک وجہ تھی۔ جنرل ضیاالحق کے ملٹری کوپ کے بعد 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دیدی گئی۔! ان کا جوان بیٹا میرمرتضیٰ بھٹو ، اپنی ہی بہن کی حکومت میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔! دوسرے بیٹے شاہنوازبھٹو کو فرانس میں زہر دیکر مار دیا گیا۔!  جبکہ بے نظیربھٹو 2007 میں انتخابات کی ریلی میں قتل ہو گئیں۔!

جنرل یحیی خان:

آرمی سے ذلت سے نکالا گیا! اور طویل ترین علالت کے بعد اگست 1979 کے آوائل میں اس حالت میں مرا! کہ ایک چارپائی پر بے سدھ آنکھیں کھولی آسمان کو ٹکٹکی باندھے تکتے ہوئے مر گیا۔! یحییٰ خان اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب بھی  کبھی عوام کے سامنے آتا اس پر ہوٹنگ ہوتی۔!

لیفٹینٹ جنرل امیرعبداللہ خان نیازی:

ہندوستان کی قید سے رہائی پاکر اپریل 1974 میں واہگہ کے باڈر سے داخل ہونے والا آخری فوجی تھا۔! اس حال میں کہ صرف صوبائی وزیرِ تعلیم  عبدالخالق لینے پہنچے۔! نیازی جب بھی ملٹری میس آتے کوئی بھی ان سے بات نہ کرتا۔

ائرمارشل رحیم خان:

زندگی کے آخری ایام امریکہ میں تنِ تنہا گزارے۔! جب انتقال کیا تو سوائے امریکہ میں پاکستان ایمبسی کے چند لوگوں اور انکی بیٹی کے کوئی بھی شامل نہیں تھا۔! لاش کو ایک ویران قبر میں دفن کر دیا گیا۔ 

جنرل حمید:

 یحییٰ کے بعد کافی عرصہ  تک زندہ رہے! مگر لاہور میں انتہائی غربت اور کسمپرسی کے حالات میں وفات پائی کہ کوئی بھی انکا نوحہ خواں نہ تھا۔

جنرل گل حسن:

ان کو چھپاکی اور  دھپڑ کا مرض لاحق ہو گیا! اور شکل ایسی بگڑی کہ کوئی پہنچان نہ سکتا تھا۔! اس پر کینسر ہو گیا اور کافی عرصہ اس حال میں گزارنے کے بعد 1997 کو راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں وفات پائی۔

گاندھی:

گوکہ اندراگاندھی یہ سقوطِ ڈھاکہ میں براہِ راست ملوث نہیں تھی،! مگر پسِ پردہ انہی کی ساری سازشوں سے سقوطِ ڈھاکہ کو تقویت پہنچی۔! یہ  1984 میں اپنے ہی سیکیورٹی گارڈز کے ہاتھ ماری گئی۔!  اندراگاندھی  کا بیٹا سنجے گاندھی 1980 میں طیارے کے حادثے میں مارا گیا۔! دوسرابیٹا راجیو گاندھی  1991 میں قتل ہو گیا۔ 

جنرل ضیاالحق:

گو انکا سقوطِ ڈھاکہ سے براہ راست رابطہ نہ تھا،! مگر انہوں نے پاکستان کی پہلی حقیقی جمہوری حکومت پر شبخون مارا تھا! اور ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں ایک ایسے کیس میں جس سے انکا کوئی تعلق نہ تھا تختہ دار پر لٹکا دیا۔! ضیاالحق 17 اگست 1988 میں ایک ہوائی حادثے میں مارا گیا، اسطرح کہ  ان کی لاش کی شناخت تک نہ ہو پائی۔ صرف ایک دانت سے پہچان کر کے اسے اسلام آباد لا کر دفن کر کے مقبرہ بنا دیا گیا۔

Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka Saqoot e Dhaka

Shaikh Mujib ur Rehman, Zulifqar Ali Bhutto, Indra Ghandhi, Saqoot-e-Dhaka, General Yahya Khan, General Ayub Khan, Bangladesh

بقلم: مسعود


Pegham Logo Retina

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW