Jism
#میراجسم میری مرضی کے بینر تلے پاکستان کی “لبرل” خواتین غالباً آٹھ مارچ کو ایک جلوس کا ارادہ رکھتی ہیں۔
آج کی عورت سوشل میڈیا کی آزادی کی وجہ سے اسقدر خود شناس ہو چکی ہے! کہ اسکو اب اُس نظام سے آزادی چاہیے جس میں وہ اس خظے میں پچھلے ہزاروں سالوں سے جکڑی ہوئی ہے!
دوسری جانب اس بینر کو دیکھتے ہی! پاکستان کا مہذب، معتبر، معتدل، باحیا، شریف اور نیک و پارسا مرد اس عمل پر سراپا متنفر ہے! اور اسکو روکنے کی ہر ممکنہ کوشش میں ہے!
ذرا اوپر کا جملہ پھر سے پڑھئیے! کچھ گڑ بڑ نہیں لگ رہی؟ #MeraJismMeriMarzi
جملے میں غلطی برطرف! ہم اس وقت جس بات پر بحث کرنے لگے ہیں،! وہ یہ ہے کہ آخر وہ کونسی آزادی ہے! جو عورت چاھتی ہے اور جس پر مرد برھم ہے؟ اور اسقدر برھم ہے! کہ ایک نام نہاد رائٹر نے ایک ٹی وی شو میں آ کر ایک عورت کی توھین و تذلیل کر ڈالی؟!
اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ پر کچھ نظر ڈالنی پڑے گی! #MeraJismMeriMarzi
جغرافیائی طور پر ہمارے ملک کا تعلق ایک ایسے خطے سے ہے! جو ہزاروں سالوں کی لادینیت سے ہوتا ہوا! ہندوازم اور کئی سو سال بعد جا کر اسلام میں داخل ہوا۔! اس دور میں عورت کا عورت ہونے کے سوا اور کوئی حق نہ تھا۔! یہاں تک کہ ہمارے پڑوس میں ایران کی ایک انتہائی پاورفل اور مضبوط طاقت میں زن، زر اور زمین کو فساد کی جڑ کہہ کر اسے پبلک پراپرٹی بنا دیا! کہ اگر تم میں دم ہے تو وہ دوسرے کی زن، زر اور زمین پر قبضہ کر لو! ایران کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے! کہ طاقتور طبقے نے اس سے کیا کیا فائدہ اٹھایا۔ #MeraJismMeriMarzi
کئی ایک جگہوں سے عورت کے حکمران ہونے کے نشانات بھی ملتے ہیں! مگر وہ خاص عورتوں کا نصیب تھا، عام عورتیں بچے جننے والی گائے بھینسوں سے زیادہ اہم نہ تھیں!
خود ہمارے نبی پاک ﷺ کے معاشرے میں عورت کا مقام اس سے سوا نہ تھا! کہ وہ مرد کی تسکین کا سامان بنے اور بچے جنے! اور اگر باپ مر جائے تو بیٹے کو حق تھا کہ اپنی سوتیلی ماں کو گھر میں ڈال لے! اور پھر اس سے وہی لذت حاصل کرے! جو اسکا باپ حاصل کرتا رھا ہے! اور پھر وہ عورت ہی تھی! جسے زندہ در گور کر دیا جاتا رھا ہے۔ عرب اپنی عورتوں کو جوا جیتنے کا سامان بناتے تھے! اور کئی بار اپنی عورتیں جوئے میں ہار جایا کرتے تھے۔! اور یہی نصیب خطہ ہندوستان کی عورتوں کا تھا! جوئے میں عورت کو ھار جانا تو پاک و ہند میں آج تک پایا جاتا ہے! #MeraJismMeriMarzi
ظہورِ اسلام نے عورت کو اسکا حق دیا!
قرآن نے عورت کی وراثت مقرر کی! اسکو عزت دی، نفس دیا، تحفظ دیا۔! اس کے حقوق و فرائض کو واضح کیا۔! اور پھر ان سب کو عملاً کر کے دکھایا ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ نے۔
آپ ﷺ نے کبھی اپنی سوئی ہو عورت جگایا نہیں اور کھانا خود گرم کر کے کھا لیا،! آپ ﷺ نے گھر کے کام کیے، صفائی کی،! جھاڑو لگایا گھر کے کاموں میں اپنی عورتوں کا ہاتھ بٹایا۔! ان میں عدل قائم کیا اور انصاف سے عورتوں سے سلوک کیا۔! آپ ﷺ کبھی اپنی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور عورت کو مارنے سے منع فرمایا! مگر اتنا کہ جیسے پینسل سے مارتے ہیں۔! مرد کی مار سے عورت کے جسم پر نشان کو آپ ﷺ نے سخت ناپسند فرمایا۔
آپ ﷺ نے عورت کو مکمل حق دیا! کہ وہ اپنے لیے اس مرد کا رشتہ قبول کر لے! جسے وہ اپنے لیے درست سمجھتی ہے! آپ ﷺ نے والدین کے کیے ہوئے جبراً نکاح کو فاسق قرار دیتے ہوئے! عورت کو اسکی مرضی کی مطابق نکاح کرنے کی اجازت دی!
یہ چند اعمال ہیں اس دین کے جس کے ہم امتی ہیں! اور اس ملک پاکستان میں 96 فیصد لوگ اس دین کے ماننے والے ہیں!
جب ہمارا دین عورت کے حقوق و فرائض پر اسقدر واضح ہے! تو وہ کیا وجہ ہے آج کی عورت سڑکوں پر نکل کر آزادی مانگ رہی ہے؟ #MeraJismMeriMarzi
جواب صاف ہے! ہم مسلمان تو ہیں مگر اسلام ہمارے عمل میں نافذ نہیں! ہمارے اعمال اسلام کے بضد ہیں اور ہمارے اندر دین نام کی کوئی شے نہیں! اور ہمارے طور طریقے آج بھی درجہ بالا بیان کی گئی حالت کے مطابق ہیں! ہمارے ہاں عورت کو بچے جننے والی مشین! اور گھر بھار کی صفائی ستھرائی کرنے والی کھانا وانا بنانے والی نوکرانی! اور راتوں کو بستر گرم کرنے والی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا!
مردوں سے غالب معاشرے میں عورت کو ہم نے وہ حقوق کبھی دئیے ہی نہیں! جنکا تعین اسلام نے کیا!
وراثت میں اسکے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے! یہ کہہ کر اسے لوٹ لیا جاتا ہے کہ تم تو بیٹی ہو! یہ قرآن کی سخت نافرمانی ہے اور ہمارے ہاں یہ نافرمانی انتہائی ڈھٹائی کی ساتھ کی جاتی ہے!
اگر ایک عورت کے ہاں مسلسل بچیاں پیدا ہوں! تو اس وقت تک اسے حاملہ رکھا جاتا ہے جب تک اس سے کوئی بیٹا پیدا نہ ہو! ایسے میں بیشک اس عورت کے جسم کے اعضا تباہ ہی کیوں نہ ہو جائیں! اور اگر کوئی عورت لڑکا پیدا نہ کر سکے! تو اس پر اسکی رضامندی کے بغیر دوسری پھر تیسری عورت ڈال دی جاتی ہے! اس کی نفسیات کی ساتھ بھیانک ٹارچر کیا جاتا ہے! ایک بار پھر قرآن کی نافرمانی اور انتہائی ڈھٹائی کیساتھ! #MeraJismMeriMarzi
خودساختہ مذہبی شرح نکال کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر! تین بار ‘طلاق طلاق طلاق’ کہہ کر اس سے رابطہ توڑ لینے اور بے رحم معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا – جو کہ خود قرآن کی تکذیب ہے اور انتہائی ڈھٹائی کیساتھ ہے! جس میں نام نہاد ملا کی اجازت شامل ہوتی ہے!
کیااس معاشرے میں جہاں لاکھوں بچیاں کنواری بیٹھی ہیں وہاں ہر لمحہ طلاق کا خوف کم ہے؟ شاید اس سے آزادی کہ عورت سے حلالے کرنے کا گناہ بھی! اسی معاشرے کے خودساختہ مذہبی ملاؤں نے نکالے ہیں! شاید اس سے آزادی کہ مدرسوں میں بچیوں کو قرآن کے سائے تلے ہوس کا نشان بنایا جاتا ہے!
اس بات سے آزادی کہ گھروں میں چولہوں کے پھٹنے سے ہمیشہ بہو ہی کیوں جل مرتی ہے؟!
شاید اس سے آزدی کہ عورت کو بیاہا نہیں جاتا! بلکہ جہیز کے لیے اسکے سودا کیا جاتا ہے! اور سفید پوش والدین اس معاشرے میں اپنا ناک رکھنے کے اپنے اعضا بیچ کر جہیز بنا کر!
معاشرے کے ناسور مردوں کے والدین کی دولت کی ہوس کا پیٹ بھرتے ہیں! شاید اس سے آزادی کہ اگر کوئی عورت کسی کن ٹٹے کو ٹھکرا دے! تو اس پر تیزاب پھینک کر اسے عمر بھر کے لیے مفلوج نہ کر دیا جائے،! شاید عورتوں کو اغوا کر کے دبئی لیجا کر نائٹ کلبوں میں نچوانے سے آزادی،! شاید اس ہوس بھری نظر سے آزادی کہ پڑوسی کی بیوہ بھوکی ہے! کہ جوان؟ اس سے آزادی کہ بچیوں کی ازدواجی زندگی کو خاندانوں کی ناک پر قربان نہ کیا جائے!
شاید اس سے آزادی کہ اگر عورت کا ریپ ہو تو! اسے چار گواہ لانے کو نہ کہا جائے بلکہ اسے تحفظ دیا جائے! #MeraJismMeriMarzi
شاید اس سے آزادی کہ اسکا ریپ نہ کیا جائے!
تیرہ تیرہ سال کی بچیوں کیساتھ زنا کر کرے! انہیں ماں نہ بنایا جائے، چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ زنا کی فلمیں بنا کر سوشل میڈیا پر نہ چڑھایا جائے۔! شاید اس سے آزادی کہ عورت جب بازار جا نکلے تو اسکے جسم سے انگلیاں نہ لگائی جائیں!، یا دکاندار بچیوں کی چھاتیوں کو نہ ٹٹولے۔! شاید اس سے آزادی کے مریضہ کے جس کا علاج کرنے کی بجائے اس سے انجوائے نہ کیا جائے! اور شاید اس سے آزادی کہ جن نکالنے کے بہانے ناسور عامل اس سے اپنی ہوس نہ پوری کریں!
شاید اس سے آزادی کی بیوی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے! کہ بیوی ایک داشتہ ہے جسے جب چاہا جیسے چاہے استعمال کیا، شاید عورت چاھتی ہے! کہ اس تعلق میں بھی اس سے اسکی رضامندی لی جائے!
شاید اس سے آزادی کہ بچیوں کی جبراً شادی نہ کی جائے! اور ان سے پوچھنا اپنے لیے انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے! شاید اس سے آزادی کہ کہیں کاراکاری کہیں عزت کے نام پر اور کہیں وٹہ سٹہ سے اسکے حقوق کا قتل نہ کیا جائے!!!
شاید اس سے آزادی کہ اگر عورت سائیکل چلانا چاہتی ہے،! موٹرسائیکل چلانا چاھتی ہے،! گاڑی چلانا چاھتی ہے یا کسی لانگ ڈرائیو بس میں میزبان ہوتی ہے! تو اسکے جسم پر ہوس بھری نظریں نہ رکھی جائیں۔ اگر اسے مجبوراً معاشرے میں نکلنا پڑے تو اسے تحفظ کا احساس ہو!
میں نہیں جانتا کہ اس معاشرے کے مردوں نے ان میں سے کتنی باتیں ایسی ہیں! جنہیں عورت کوحق بجانب سمجھا ہے! میں نہیں جانتا کہ اس معاشرے کے غیرتمند ان باتوں پر توجہ دینے کی بجائے #میراجسم میری مرضی کو اخلاقی بے روا روی سے کیوں تعیبر کرتے ہیں؟! کیا درجہ بالا باتیں – جو سب کی سب اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں، اس بینر تلے نہیں آتیں؟! اور پھر کیا اس پاکستانی معاشرے کا مرد اس قدر مہذب، معتبر، معتدل، باحیا، شریف اور نیک و پارسا ہے کہ وہ عورت کے یہ حقوق ماننے سے انکار کر رھا ہے ؟ !
میں اور مجھ جیسے لاکھوں معتدل مرد عورت کے ان حقوق کے مطالبے کے حق میں ہیں،! لیکن اس کے برعکس اگر عورت ایسی آزادی چاھتی جس میں عریانی ہو،! بے حیائی ہو، آوارگی ہو، بدچلنی ہو! ایسی عورت پر لعنت، اسکی سوچ پر لعنت، اسکے کردار پر لعنت! میرا خیال ہے کہ خود عورت ایسی آزادی پر لعنت بھیجے گی! #MeraJismMeriMarzi
وقت آن پہنچا ہے! کہ تعلیم کا نظام درست کیا جائے اور اس تعلیم میں جھوٹ اور مکر و فریب کو نکال کر! حقوق و فرائض کی تعلیم دی جائے! تربیت کی جائے کہ ہمارا معاشرہ اسلامی قدروں کا حامل نہیں ہو سکتا !جب تک ہم عورت و مرد کی تریبت اس طرح نہ کریں جیسے قرآن و سنت نے واضح کیے ہیں! اسلامی تعلیمات میں حقوق و فرائض ہیں! – مرد کے لیے بھی اور عورت کے لیے بھی۔ شرم و حیا ہے – مرد کے لیے بھی اور عورت کے لیے بھی!
اب یہ مرد و زن پر ہے کہ وہ آزادی کا مفہوم کیا لیتے ہیں!
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خردمند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلوبند
#KhalilUrRahmanQamar, #AuratMarch2020, #WeRejectMeraJismMeriMrzi, #MeraJismMeriMarzi, #Pakistan Current Affairs.
بقلم: مسعودؔ
Add Comment