Current Affairs Humara Moashra

Education System for Pakistan

Education System for Pakistan
Education System for Pakistan

پاکستان کا تعلیمی نظام

[dropshadowbox align=”none” effect=”raised” width=”auto” height=”” background_color=”#fff767″ border_width=”2″ border_color=”#842500″ ]اکثر لوگ پاکستان کے نظامِ تعلیم سے سخت نالاں ہیں، پاکستان کا نظامِ تعلیم تبدیلی مانگتا ہے![/dropshadowbox]

محکوم علم

اقرأ وہ لفظ ہے جو حضرت جبرئیل نے نبی پاک ﷺ کو سب سے پہلے پڑھایا! اور ایک اتائی کو علم کی روشنی سے منور کر دیا۔

 علم کی وہ روشنی جس نے پھر ایک سوئی ہوئی دنیا میں ایسا انقلاب پھونک ڈالا! کہ جس سے یورپ  بیدار ہوا اور مسلمانوں کے علم سے استفادہ کر کے ساری دنیا پر چھا گیا۔

دنیا تو کیا وہ یورپ آسمانوں پر احاطے باندھنے لگا اور چاند کو بھی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔

وہ علم جو مسلمانوں کی وراثت تھا۔! وہ علم جس سے مسلمانوں کی تعمیر ہوئی وہ علم مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔

جب کوئی قوم محکوم ہوتی ہے تو اسکا علم بھی محکوم ہو جاتا ہے۔! یہی ہوا۔ ہمارا علم بھی ہمارے ضمیروں کی طرح محکوم ہو گیا۔

اور ہم نے اپنے آپ کو – اپنی خودی کو بھلا کر -تو تو میں میں- میں فتنے فساد کرنے شروع کر دئیے! اور یورپ ہمارے سروں کی قیمت لگانے لگا۔ 

ہماری سوچیں اسقدر محکوم ہو گئیں کہ ہمیں سکھا دیا گیا! کہ “پاکستان چودہ اگست کو آزاد ہوا” – یعنی پاکستان پہلےمحکوم تھا گویا۔

میں اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں۔! پاکستان چودہ اگست کو آزاد نہیں ہوا تھا، قائم ہوا تھا! یہ وہ ملک ہے جو ایک دینی تصور کی بنیادوں پر قائم ہوا۔ یہ محکوم نہیں تھا – قائم ہوا ہے۔

ہندوستان محکوم تھا، ہندوستان پندرہ اگست کو آزاد ہوا تھا۔

ظاہری سے بات ہے جب علم و عقل اور ضمیر و ہنر سب کچھ محکوم ہوں! تو حاکم کی ہر بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے! لہٰذا ہمارے ہاں بھی اسی بات کو قبول کر لیا گیا کہ 14 اگست ہمارا یومِ آزادی ہے۔

درحقیقت انسان کو معراج علم و عمل کی بنا پر ملتا ہے۔! نبی پاک ﷺ کو معراج سالہا سال کی عبادت، علم و عمل کے بعد حاصل ہوا۔

ہماری قوم ہنوز عقل و علم و ہنر میں اپنے بچگانہ پن میں ہے۔!  پاکستانی قوم کو علم و عمل میں معراج حاصل کرنے کے لیے اپنے نظامِ تعلیم پر خاص توجہ دینا! ہو گی۔

ہمارا نظامِ تعلیم

ہمارے ہاں نسل در نسل ایک جیسا سلیبس، ایک جیسی کتابیں  چلتی ہیں۔! ملک بھر میں اپنی من مانی کا سلیبس چلتا ہے۔! کہیں ایسا اسٹینڈرڈ نہیں جو قوم کی اجتماعی تریبت کر سکے۔ جتنے اسکول ان کے اتنے ہی اندازِ تعلیم پائے جاتے ہیں۔

تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس پر اس ملک میں شاید سب سے کم توجہ دی گئی ہے۔

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں 3 طاقتیں برسرِ اقتدار رہی ہیں: پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان فوج!

ان تینوں نے کبھی اس بات پر توجہ دی ہی نہیں کہ علم پر توجہ دی جائے۔! نون لیگ اور پی پی پی کے لیے تو یہ خوب تر تھا کہ عوام جسقدر جاھل رہے گی اسقدر فرمانبردار رہے گی۔! کیونکہ جاھل کو ایک پلیٹ بریانی پر یا روٹی کپڑا اور مکان پر ٹرخایا جا سکتا ہے! مگر ایک علم یافتہ انسان اپنے حقوق مانگتا ہے! اور اگر وہ اپنے حقوق مانگے گا تو وہ شاہنشاہت جو یہ دونوں پارٹیاں میثاقِ جمہوریت کے نام پر قائم کرنا چاہتی ہیں! – وہ کیسے قائم ہوں؟

ان پارٹیوں کی یہی سوچ ہے کہ تعلیم کو ایسا بنا دیا جائے  !جن کی اعلیٰ سطح پر اپروچ ہے وہ اپنی اولادوں کو عوام کے پیسے! پر یورپ کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں علم دلایا جائے جبکہ باقی ماندہ ملک میں جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں کریں! – نہیں کرنا چاہتے نہ کریں – سانوں کی۔  ہم تو اپنی اولادوں کو اسی عوام کے پیسہ پر یورپ کی عالیشان اسکولوں میں پڑھائیں گے! اور پھر اسی عوام پر مسلط کریں گے۔

نظامِ تعلیم کو ایسا ناقص اور بے جان کر دیا جائے! کہ اگر کسی غریب کا بچہ کچھ پڑھ لکھ بھی جائے تو اسکو اچھی جاب نہ ملیں۔! یہی وجہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر بندوقیں اٹھا کر چور اچکے بن جاتے ہیں،! یا پھر رکشے اور چائے کے ٹھیلے لگا لیتے ہیں۔

اکثر متوسط اور غریب طبقے کے والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہی نہیں۔! وہ – جانے انجانے – جانتے ہیں کہ جو معیارِ تعلیم ہے اس میں اگر بچوں پر اتنا پیسہ برباد کر بھی انہیں تیشہ کانڈی، کارپٹ بننا اور لوہار ترکھان یا درزی کے پاس ہی بٹھانا ہے! تو بہتر ہے کہ وقت اور پیسہ برباد نہ کیا جائے !اور بچپن ہی سے انہیں کوئی ہنر سکھا دیا جائے۔

یہ کسی قیامت سے کم نہیں کہ ڈھائی کڑوڑ بچہ اسکول جانے سے محروم ہے! ڈھائی کڑوڑ!!

یورپ کے کئی ممالک کی آبادی ملا! کر بھی ڈھائی کڑوڑ نہیں بنتی جتنے بچے ہمارے اسکولوں سے محروم ہیں! – یہ وہ بچے ہیں جو اس ملک کے معمار ہیں! کیا ابھی بھی ہمیں سمجھ نہیں ائے گی! کہ مغرب ہم پر حکمرانی کیوں کر رہا ہے؟

تعلیم کسی بھی قوم کے عروج و زوال کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔! لیکن تعلیم میں معیار بھی ہونا چاہیے۔! وہ تعلیم جس میں سالہاسال ایک جیسے امتجانات دئیے جائیں، جس میں پیپرز فیس بک پر مل جائیں،! جہاں پیسہ دیکر نقل کرائی جائے وہ تعلیم سب سے بڑا ناسور ہے!

اور یہی وہ ناسور ہے جو اس ملک کی رگوں میں پل رہا ہے۔ تعلیمی ناسور۔

آج ہمارا نظامِ تعلیم نہ علم دیتا ہے نہ عمل!

ایک طرف اسکول کی تعلیم – وہ بھی ناخالص! دوسری طرف مدرسہ ہے تو وہ بھی بے جان!

مدرسوں میں بھی زبردست رٹہ رٹائی ہے۔! طالبعلموں کو اسلام سکھانے کی بجائے مولوی ازم سکھائی جاتی ہے۔ !ہر مدرسہ کسی دوسرے کے مدرسہ کی نسبت بات کرنا بھی کفر سمجھتا ہے۔

تمہیں قرآن و حدیث کی سمجھ ہو ہی نہیں سکتی لہذا تمہیں جو سکھا دیا جائے وہی سیکھ لو! – اس پر مدرسے کے بچوں کی تربیت ہو رہی ہے۔

رٹے لگا لگا کر حافظِ قرآن پیدا کیے جا رہے ہیں !– جبکہ وقت کی پکار ہے کہ حافظِ قرآن کی بجائے حاملِ قرآن پیدا کیے جائیں!

انہیں میں سے اکثر مدرسے پھر اپنی انتہا پسندی میں اس مقام پر جا پہنچتے ہیں! کہ صبر و برداشت، تحمل و سکون، اعتدلال و بیلنس بالکل کھو کر دہشتگرد بن جاتے ہیں۔

نہ معلم پیدا ہو رہے ہیں نہ عالم! سائنسدان پیدا ہو رہے نہ  حاملِ قرآن! نہ دین میں کوئی مقام ہے نہ دنیا میں!

جو جو جہاں جہاں جو جو سیکھ رھا ہے وہی اسکا اثاثہ ہے – مگر اجتماعی طور پر ہم زبردست ناکام ہیں۔

جو نظامِ تعلیم میں دینا چاھتا ہوں اس میں اسلام کو مولویوں کے چنگل سے آزاد کرنا ہے۔! اس نظامِ تعلیم میں طلبہ کو اس مقام پر لایا جائے گا جہاں وہ خود قرآن کو سمجھ سکیں گے۔

پاکستان کے نظامِ تعلیم کو ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔! ایک ایسا نظام جو سارے ملک میں یکساں ہو۔! جو انسان کی تعمیر کر سکے نہ کہ اس پر علم کا رنگ چڑھا دے۔

ایسے نظام کے لیے موجودہ نظام کو مکمل طور پر بدلنا پڑے گا۔

تو پھر پاکستان کا نظامِ تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟

اصلاحات

نظامِ تعلیم کا جو نقشہ میں پیش کرنے جا رھا ہوں اسکے لیے! کچھ ابتدائی اقدام کرنا ضروری ہیں۔! آئین میں اصلاحات ضروری ہیں۔

سب سے پہلی اصلاح یہ کی جائے کہ پاکستان کی سرحدوں میں پیدا ہونے والے! ایک ایک بچے کے لیے بلا امتیاز وظیفہ مقرر کیا جائے۔

وظیفہ پیدائش سے لیکر 18 سال کی عمر تک ہونا چاہیے !– مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی کی جائے۔  !جیسا کمسن بچوں کو زیادہ،  ٹین ایج بچوں کو کم۔ یہ والدین کی انکم پر منحصر ہونا چاہیے۔! ایک سسٹم متعارف کرایا جائے جو وظیفہ کا حساب کتاب کرے۔! اس طرح والدین کی انکم کا ڈیٹا بھی حکومت کے ڈیٹابیس میں آ جائے گا۔

یہاں پر ایک اور اہم قانون پاس کیا جائے کہ ہر وہ بچہ جو وظیفہ پائے وہ ایک خاص میڈیکل پروگرام کے تحت تربیت پائے۔! وہ میڈیکل پروگرام ان بیماریوں اور خطرات سے حفاظت فرمائے جو بچوں کو لاحق ہوتی ہیں۔! ایسی بہت ساری بیماریاں جنہیں جاھلیت کی بنا پر مرغی، جن اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ کر عاملوں سے بچوں کو تباہ کرایا جاتا ہے ان سے نجات دلائی جائے۔! جو پروگرام سب سے اہم ہو، وہ یہ ہو:

[table id=4 /]

یہ اصلاح کی جائے کہ ہر وہ بچہ جسے وظیفہ ملتا ہے وہ قانوناً اسکول کا پابند ہو گا! اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں مگر وظیفہ لیں انہیں! قانوناً سزا دی جائے۔ بچوں کی ہر طرح کی مزدوری کو آئین کے تحت جرم قرار دیدیا جائے۔

تعلیم کو آسان کرنے کے لیے اسکول یونیفارم کو ختم کر دیا جائے! اسکی جگہ اس نئے نظامِ تعلیم سے ایسی تربیت کی جائے کہ طالبعلموں کا لباس صاف ستھرا اور مہذب ہو – اسکی تربیت نظامِ تعلیم سے ہو نہ کہ جبراً پہنائے گئے یونیفارم سے! اس طرح یونیفارم مافیا کا قلع قمع ہو گا!

اس نئے نظامِ تعلیم کا ایک اور بہت ہی اہم پہلو یہ ہو گا کہ Segregation of Sexes کا خیال رکھا جائے گا۔ یعنی بچیوں کے لیے سارے کا سارا نظام الگ اور بچوں کے لیے الگ ہو گا! کو-ایجوکیشن ختم کر دی جائے گی۔

 اس نئے نظامِ تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ نظام کی ہر دیوار گرائی جائے: ہر طرح کے اسکول اور مدرسے کا لائسنس کو منسوخ کیا جائے۔ کہیں بھی کوئی بھی ادارہ کسی بھی طرح سے تعلیم سے وابستہ ہے اسکا لائسنس منسوخ کرنا ہوگا۔

اور پھر جو نیا نظامِ تعلیم ترتیب دیا جائے اس کا نام المکتب رکھا جائے۔

المکتب کے 4 جز ہونے چاہیے جن میں ہر طالبعلم کو گزرنا پڑے۔

آئیے اب باری باری ان جز پر بات کرتے ہیں۔

بازیچۂ اطفال

پاکستان کی سرحدوں میں پیدا ہونے والا ایک ایک بچہ: چاہے وہ کسی بھی قوم، نسل، رنگ، ذات پات سے وابستہ ہو، وہ ریاست پاکستان کی ملکیت ہے! ریاست کا اس پر حق ہے! اور یہ حق جتاتے ہوئے ریاست یہ قانون پاس کر دے کہ  بچہ جب 3 سال کی عمر کو پہنچے تو اسے کنڈرگارٹن میں جمع کرایا جائے۔

کنڈرگارٹن جسے اس نئے نظامِ تعلیم میں بنیادی اینٹ کی حثیت حاصل ہو گی، اسے بازیچۂ اطفال کا نام دیا جائے۔ بازیچۂ اطفال میں بچوں کی ابتدائی تربیت کی جائے۔ بچوں کو کھیل ہی کھیل میں دین، دنیا اور پاکی و نجاست سے لیکر کھانے پینے اور رہن سہن کے آداب سکھائے جائیں۔ بچوں کو قانون اور انصاف کی قدر کرنا سکھایا جائے۔

ہر بازیچۂ اطفال میں بچوں کو بچوں کی گاڑیاں مہیا کی جائیں اور انہیں ٹریفک قوانین کا پاس کرنا سیکھایا جائے – بالکل ایسے جیسے اسکنڈینیویا میں ہوتا ہے۔

بچوں کو سکھایا جائے کہ اگر آپ قوانین کا پاس نہیں کریں گے تو کیا کیا مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ سب کھیل ہی کھیل میں سکھایا جائے۔

ان کی کرٹیویٹی کو ابھارنے کے لیے بچوں کو کاغذات کاٹ کر مختلف اشکال بنانا سکھایا جائے – انہیں رنگوں کے ساتھ کھیلنا سکھایا جائے اور بچوں کا ٹیلینٹ ابھارا جائے۔

بچوں کو سکھایا جائے کہ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق صفائی کیسے ہوتی ہے۔ مل بیٹھ کر کھانا کیسے کھایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کا خیال کیسا رکھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو اسکے اصل نام سے پکارا جائے – ہمارے ہاں ناموں کو بگاڑنا اپنی شان اور دوسرے کی توھین سمجھ کر کیا جاتا ہے – یہ غیراخلاقی ہی نہیں غیر اسلامی بھی ہے۔ نبی پاک ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ لوگوں کو انکے اصل نام سے پکارا جائے – ہمارے ہاں انسان کی تذلیل کرنا فخر سمجھا جاتا ہے! جبکہ میں یورپ میں دیکھا ہے کہ نبی پاک ﷺ کا فرمان پورا کیا جاتا ہے۔

بازیچۂ اطفال میں بچہ 3 سال گزارے اور ان تین سالوں کا حدف یہ ہونا چاہیے:

  • اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی تعریف کرنا سیکھے
  • پہلے دو کلمے زبانی یاد کیے جائیں
  • ہندسوں اور الفاظ کی پہچان
  • پاکستان کے متعلق ابتدائی تعلیم
  • قانون اور اداروں کی نسبت علم
  • ابتدائی اخلاقیات: اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے سلام دعا کا طریقہ
  • ابتدائی اسپورٹس
  • اور ابتدائی تعلیم تاکہ پہلی جماعت کے قابل ہو

بازیچۂ اطفال کی سب سے اہم خوبی یہ ہونی چاہیے کہ ایک ایک بچے کی نشونما پر خاص نظر رکھی جائے۔ اسکے جسمانی نشونما سے لیکر تعلیمی اور ذہنی۔ 

ہر بچہ ان تین سالوں میں ایک سرکاری ڈاکٹر کی نگرانی میں رہے۔  اور درجہ بالا جو میڈیکل پروگرام دیا گیا ہے ڈاکٹر یہ یقینی بنائے کہ ہر بچے اور بچی کو یہ پروگرام دیا جائے۔ بچوں کی صحت اور تندرستی کی نسبت کسی قسم کی کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے!  ہر بچے کی فائل بنائی جائے جو اسکے ساتھ سالہاسال چلتی جائے۔ یہ ریکارڈ سرکاری ڈیٹابیس میں ہونا چاہیے۔

چھ سال کی عمر میں بچوں کو اس قابل بننا چاہیے کہ وہ المکتب کے دوسرے جز داخل ہو سکے۔

المکتب

المکتب کا دوسرے جز کے ساتھ ہی بچوں کے لیے ایک نئی دنیا شروع ہو جائے گی۔ ایسی دنیا جس میں طالبعلم اپنے مستقبل کی بنیاد رکھیں گے اور ان کے مستقبل کی بنیاد پھر پاکستان کا مستقبل ہو گی۔

اس جز کے دو حصے ہونگے: مدرسہ اور اسکول!

جو موجودہ یعنی 2019 کا نظامِ تعلیم ہے اس میں مدرسہ اور اسکول اپنی اپنی راہیں متعین کیے بیٹھے ہیں۔ کسی قسم کی کوئی ہم آھنگی نہیں پائی جاتی۔ کسی قسم کا کوئی انٹرلنک نہیں ہے! اس چیز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اسکولوں اور مدرسوں میں ہم اھنگی پیدا کرنے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک چھت تلے جمع کیا جائے اور المکتب جز 2 کا نام دیا جائے۔

اس میں دین سے وابستہ عالم ہوں۔ اس میں دنیاوی علوم سے وابستہ اساتذہ ہوں۔

موجودہ نظامِ تعلیم میں جو پرائمری اور سیکنڈری اسکولز ہیں، انکو ختم کیا جائے اور پہلی جماعت سے دسویں تک تعلیم ایک ہی چھت تلے اکٹھی کی جائے۔

ہر مکتب میں 20 جماعتیں ہونی چاہیے: پہلی سے دسویں تک – جماعت الف اور جماعت ب۔

ہر جماعت میں طلبأ کی تعداد 30 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

یوں ایک مکتب میں 500 سے زائد طلبا نہیں ہونے چاہیے۔

المکتب جز دو میں تعلیم کا آغاز صبح کی نماز کے وقت سے کیا جائے۔ 

ایک وقت کا تعین کیا جائے کہ مثال کے طور پر 05:40 پر نمازِ فجر ادا کی جائے گی۔ سارا سال اسی وقت کی پابندی کی جائے۔

مکتب کی بلڈنگ کے اندر ایک پورشن ایسا ہو جو مسجد کا کردار ادا کرے۔

تمام طلبأ نمازِ فجر کے لیے اس میں جمع ہوں اور نماز ادا کی جائے۔

اسکے بعد صبح 06:00 پر مکتب کا آغاز ہو اور طلبأ اپنی اپنی کلاسز میں چلے جائیں۔

ایک پیرئیڈ 45 منٹ کا ہو۔ پھر 15 منٹ کا وقفہ!

سائسنی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ اعلیٰ الفجر کے وقت میں انسان زیادہ سیکھنے کے قابل ہوتا کیونکہ دماغ ریفرش ہوتا ہے اور سیکھنے کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

مکتب میں کچھ جماعتیں دین کی تعلیم حاصل کریں اور کچھ دنیاوی علوم۔ اسی طرح پیرئیڈز بدلتے رہیں۔ تاکہ تمام جماعتیں دین اور دنیا دونوں علوم مساوی حاصل کریں۔

پھر 08:00 بجے طلبأ کو ریاست کی جانب سے ناشتہ دیا جائے۔ ایکبار پھر یہاں پر جو کچھ بازیچۂ اطفال سے کھانے پینے کے آداب سیکھ کر آئے ہیں انہیں مزید پالش کیا جائے۔

پھر کچھ علمی پیرئیڈز کے بعد 11:00 بجے طلبأ کو لنچ کرایا جائے۔ یہاں پر بھی آداب کو سکھایا جائے۔ کھانے کا خاص خیال رکھا جائے کہ کیا وہ کھانا جو بچے کھا رہے ہیں وہ انکی نشو نما کے موافق ہے؟

لنچ کے بعد پہلی سے تیسری جماعت کے بچوں کو چھٹی دیدی جائے۔ باقی اپنی کلاسز پوری کریں۔

مکتب میں جو بھی سلیبس پڑھایا جائے وہ ریاستِ پاکستان کا تصدیق شدہ ہو! چاھے وہ دینی علم ہو یا دنیاوی! وہ علم جدید طور اور طریقوں کو پورا کرتا ہو۔ وزیرِ تعلیم کی نگرانی میں ایک بورڈ ہو جو اس سلیبس کو ہر سال پرکھے اور اسکو ہر سال جدت بخشے۔

اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ جو دینی علم دیا جا رہا ہے اس میں کوئی انتہا پسندی نہ ہو! اعتدلال اسلام کا ایک اہم جز ہے، اس جز کو پاکستان کی آنے والی نسلوں کی رگوں میں یوں شامل کیا جائے کہ انکے ذہنوں سے انتہاپسندی سے پیدا ہونے والی دھشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

جدید تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کمپیوٹرز مہیا کیے جائیں۔ ہر مکتب میں سائنس کی سہولیات ہونی چاہیے۔

ایک اہم بات جس سے ہمارے ہاں شدید لاپروائی برتی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکولوں میں علاقائی زبان لازمی سیکھانا چاھیے۔ علاقائی زبان سے مراد اگر یہ نیا اسکول راولپنڈی ڈویژن میں ہو تو اس علاقے کی لوکل زبان سکھائی جائے، اگر جنوبی پنجاب میں ہو تو وہاں کی اگر بلوچستان کے کسی علاقے میں ہو تو وہاں کی اسطرح جس جس علاقے میں المکتب اسکول قائم ہو وہاں وہاں کی لوکل زبان بھی سیکھائی جائے۔

وہ رپورٹ جو بازیچۂ اطفال میں بچوں کے نام کے شروع کی جائے اور جو سرکاری ڈیٹابیس میں ہو، اسے جاری رکھا جائے اور ہر بچے پر خاص نظر رکھی جائے۔ انکی  رپورٹس اساتذہ ہر ماہ اپ ڈیٹ کریں۔ جہاں جہاں جس جس طالبعلم کو خاص توجہ کی ضرورت ہو اس پر بھی توجہ دی جائے۔ جہاں جہاں جو جو طالبعلم معمول سے اچھا اور بہتر ہے اس پر مزید خاص نظر رکھی جائے اور اسکے چیلنجز میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ ان کی ذہنی تربیت عروج پر پہنچائی جا سکے۔

ملک بھر کے مکاتب کے درمیان ہر سطح پر مقابلوں کا انعقاد کیا جائے۔ ہر مضموں میں مکاتب کے طلبہ کو پرکھا جائے۔ خاص الخاص ٹیلینٹ کو نکال کر اسے مزید پالش کرنے کے لیے اسپیشل پروگرام ترتیب دئیے جائیں۔ ان مقابلوں میں حساب کے مقابلے ہوں، قرأت کے مقابلے ہوں، تقاریر کے مقابلے ہوں اور سائنس کی فیلڈ کے مقابلے ہوں۔  فنونِ لطیفہ سے لیکر ہر اس بات کو قومی سطح پر مقابلوں میں ڈھالا جائے تاکہ اچھا طرح سے طلبا کو نکھارا جائے۔

اگر ہم پاکستان کو ایک خالص اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں تو عربی کو لازمی زبان کا درجہ دیا جائے۔ ہر طالبعلم پر عربی سیکھنا لازمی قرار دی جائے۔ عربی کی تعلیم کے لیے اصل اور خالص عرب معلم مقرر کیے جائیں۔ جو گرامر اور تلفظ کی درست ادائیگی کے ساتھ طلبہ کو عربی سیکھائیں۔ ایسے کم سے کم دو معلم ہر مکتب کے ساتھ منسلک ہونے چاہیے۔ جو طلبا کو خالص دینِ اسلام سے روشناس کرائیں۔

یہی سے پھر قرآن کی گرامر اور قرآن کی عربی کو بچوں کی رگوں میں ڈالا جائے۔ قرآن پر مناظرے کیے جائیں اور بچوں کو قرآن کی اصل روح سے متعارف کرایا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے نبی پاک ﷺ ایکبار اپنے گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسجدِ نبوی میں جا بجا قرآن اور فقط قرآن کی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے اور قرآن سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ چل رہا ہے – بالکل ایسے ہی اس نظامِ تعلیم میں ہو کہ سب سے پہلے قرآن! اسکے بعد کوئی اور بات اور یہاں تک کہ حدیث اور فقہ بھی بعد کی بات ہے۔

یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ! اس نئے نظامِ تعلیم میں اگر قرآن پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے تو اسکا! ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حدیث یا فقہ نہیں پڑھایا جائے گا۔! وہ بھی اس نظامِ تعلیم کا ایک خاص حصہ ہو گا۔! مگر جہاں قرآن کی بات ہے تو وہ سب سے پہلے اور مقدم اور مسلم حیثت سے رائج کیا جائے۔

یاد رکھیں کہ اسلامی ریاست میں فقہی اور قاضی پیدا کرنے کے لیے فقہہ اور حدیث کا علم اپنی جگہ مسلم ہے۔

یہاں پر ایک خاص بات جو ایک شاطر قاری محسوس کرے گا! کہ میں نے قرآن و حدیث میں تراجم کے ساتھ پڑھنے کی بات نہیں کی!۔ درست بالکل نہیں کی! کیونکہ جب آپ بچوں کو عربی سیکھائیں گے! اور عربی کو لازمی قرار دے دیں گے تو تراجم کی ضرورت نہیں رہے گی۔! ترجمہ ہمیشہ تیسرے انسان کے نقطۂ نظر سے ہوتا ہے۔ اس پر اختلاف باندھا جا سکتا ہے۔! جبکہ جو بات آپ خود پڑھتے ہیں وہ اختلافات سے مبرا ہوتی ہے۔! وہاں پر عقل اور شعور عروج پاتا ہے اور وہ مناظر سامنے آتے ہیں جنکا ذکر اوپر مسجدِ نبوی کی حدیث میں کیا گیا ہے۔

پاکستانی نظامِ تعلیم کو جدت کی سخت ضرورت ہے۔! ہر مکتب میں سائنس کی لبرٹی کا ہونا لازمی ہے۔! سائنس کے معاملے میں ہم بالکل گنوار ہیں۔! عالمی سطح پر بھی دنیا بھر میں ایک بھی ایسی مسلمان رصدگاہ نہیں جس کا کوئی معیار ہو! یہ ہمارے بقا کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔! سائنس اور سائنسی علوم لازمی قرار دئیے جائیں۔

مگر اس میں مقام پیدا کرنے کے لیے ابتدائی جماعتوں ہی سے سائنس کے علم کو عام کرنا ہو گا۔! طلبہ کو ہینڈز آن سائنس سکھائی جائے نہ کہ کتابوں سے رٹے لگا کر۔

ہم آئی ٹی کی فیلڈ میں بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔! اس نئے نظام تعلیم میں آئی ٹی کی تعلیم ابتدائی جماعتوں سے دی جائے۔! پروگرامنگ سکھائی جائے۔ ڈیزائن، ڈی ویلپمنٹ سکھائی جائے۔! ڈیٹابیسس سکھائے جائیں۔ اور آئی کی پچیدگیوں میں ڈال کر بچوں کو چیلنج میں ڈالا جائے۔! انہیں مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ اس فیلڈ میں کچھ کر کے دکھائیں۔  آئی ٹی کنسٹلیشن قائم کیے جائیں اور دنیا کو پاکستان میں اس فیلڈ میں انوسٹ کی دعوت دی جائے۔

اسپورٹس

المکتب نظامِ تعلیم کا تیسرا اور آخری جز اسپورٹس پر مبنی ہونا چاہیے۔! اسپورٹس کو ایک خاص طور پر ایمپلیمنٹ کیا جائے۔! جہاں جہاں المکتب نظامِ تعلیم ہے وہاں وہاں ایک اسپورٹس کمپلیکس بھی بنایا جائے۔! آبادی اور علاقے کی مناسبت سے اس میں کھیلوں کو پروموٹ کیا جائے۔! بڑے شہروں کے اسپورٹس کمپلکس میں ہر طرح کی کھیل کا انتظام ہونا چاہیے۔! جھوٹے علاقوں میں خاص خاص کھیل جیسے کرکٹ، ہاکی اور فٹبال وغیرہ ہے اسکو پروموٹ کیا جائے۔! یہ ایک آئیڈیل انداز ہو گا پاکستان کے بچوں میں ٹٰلینٹ ابھارنے اور انکے جسموں کی نشو نما اور صحت کا۔

اسپورٹس کا انداز یوں ہونا چاہیے! کہ المکتب جز 2 سے جو جماعتیں پہلی سے تیسری تک مکتب سے جلد فارغ ہو جائیں !انہیں پہلے اسپورٹس ھالوں میں کھیلنے کی جگہ دی جائے۔ مثال کے طور پر پہلی سے تیسری جماعت کی چھٹٰی 11 بجے ہو! تو وہ 2 بجے سے 4 بجے تک اسپورٹس ھال میں ہوں !– یہ بھی لازمی مضمون کی حیثیت سے ہو اور کسی کو استثنا نہ ہو۔

پھر جب چوتھی سے چھٹی جماعت کو 1 بجے چھٹی ہو تو وہ 4 سے 6 بجے تک اسپورٹس ھال میں! ہوں اور پھر ساتویں سے دسویں جماعت تک کے طلبا 6 سے رات 8 بجے تک اسپورٹس ھال میں ہوں۔

ان اسپورٹس ھال میں بھی اسپورٹس سے وابستہ ٹیچرز ہوں! جو ایک ایک بچے کی نشو و نما اور انکی اسپورٹس کارکردگی پر نظر رکھی جائے! اور وہی رپورٹ جو کنڈرگارٹن میں شروع کی جائے اسی پر اس بچے کی رپورٹنگ کو جاری رکھا جائے۔! اور وہ رپورٹ سرکاری ڈیٹابیس میں ہو۔

المکتب نظامِ تعلیم کے تحت سارے ملک میں لیگ سسٹم قائم کیا جائے اور کھیلوں کے میدان میں مقابلے منعقد کیے جائیں۔

یہ ایک انمول ذریعہ ہو گا کہ ہم پاکستان بھر سے اچھے سے اچھا ٹیلینٹ تلاش کر پائے گے۔

اب ہر طالبعلم علم کے معاملے میں ایک سا نہیں ہو سکتا،! اسی طرح ہر کوئی اسپورٹس میں ایکسا نہیں ہو سکتا! – مگر ایک ایسا نظام جو بازیچۂ اطفال سے لیکر دسویں جماعت تک فالو کرے گا! اس میں دین اور دنیاوی علم کیساتھ ساتھ عمدہ ٹیلینٹ بھی مل سکے گا۔

درجِ ذیل خاکہ المکتب نظامِ تعلیم کو پیش کر رہا ہے:

انتظامیہ

المکتب نظامِ تعلیم میں سال کا آغازچودہ اگست کے بعد جو پہلا اتوار آئے وہاں سے شروع ہونا چاہیے۔ بجائے اسکے جو آج ہے کہ اسکول سال کی ابتدا اپریل میں ہوتی ہے اور اسکے مہینہ ڈیڑھ بعد ہی لمبی چھٹیاں آ جاتی ہے۔ اس تسلسل کو توڑنے اور اسکول کے نظام کا ایک تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

پہلی چھٹی اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہو جو ایک ہفتے کی ہوں۔ دوسری چھٹی جنوری کے پہلے دو ہفتوں میں ہو جو سردی کی چھٹیاں کہلائیں۔

اگلی چھٹیاں مارچ کے اس ہفتے میں ہوں جہاں 23 مارچ آئے اور پھر اسکے بعد المکتب نظامِ تعلیم کے اختتام پر گرمی کی چھٹیوں کی صورت میں ہوں جو جون کے پہلے ہفتے میں شروع ہو کر اگلے سال کی ابتدأ یعنی چودہ اگست کے بعد تک ہوں۔

وہ انگنت چھٹیاں جو کبھی یومِ دفاع پر آ جاتی ہیں، اقبال ڈے پر آ جاتی ہیں، قائد ڈے پر آ جاتی ہیں یا اور اس طرح کی ان سب کو منسوخ کرنے کی ضرورت ہے! وہ چھٹیاں جنکا اوپر ذکر کیا گیا ہے انکے علاوہ عیدین کی چھٹی ہونی چاہیے وہ بھی صرف 3 دن!

امتحانات کا طرزِ انداز بدلا جائے اور بجائے بنے بنائے اور رٹے رٹائے پیپرز کی جگہ طلبأ کو اس طرح پرکھا جائے:

  • ہر تین ماہ بعد طلبا کو ایک اہم پروجیکٹ بنانے کو دیا جائے جو اس تعلیم اور ان حالات پر مبنی ہو جن میں سے طلبا گزر رہے ہوں
  • ایک ایسا پروجیکٹ جس میں طلبا کو ریسرچ کرنا پڑے
  • اسکے علاوہ چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ جو کسی خاص مضمون سے وابستہ ہوں، دئیے جائیں
  • ہر تین ماہ ان پروجیکٹس کو مدِنظر رکھتے ہوئے طلبا کو مارکس دیے جائیں
  • والدین کے ساتھ ہر تین ماہ بعد ایک میٹنگ رکھی جائے جس میں طلبا اور والدین کے ساتھ انکے کارکردگی کے مطابق بات چیت کی جائے
  • پھر سال کے اختتام پر ایک میجر پروجیکٹ دیا جائے
  • اس میجر پروجیکٹ میں سارے سال کی تعلیم کو یکجا کیا جائے، طلبا کی قابلیت کو پرکھا جائے اس میجر پروجیکٹ  اور سہ ماہی پروجیکٹ کو ملا کر سرکاری طور پر ہر طالبعلم کی ایک سالانہ رپورٹ تیار کی جائے اور اسکے مطابق طالبعلم کو مارکس دئیے جائیں، سالانہ مارکس طلبہ کے پاس یا فیل ہونے کی علامت ہوں
  • یہ میجر پروجیکٹ چیک کرنے کے لیے اسے دور دراز کے مکاتب میں بھیجا جائے، یعنی اپنے مکتب کے اساتذہ اپنے طلبہ کا پروجیکٹ چیک نہیں کر سکیں
  • سال کے اختتام پر ایک گرینڈ میٹنگ کی جائے جس میں اساتذہ فرداً فرداً طلبہ کے والدین کے ساتھ اس رپورٹ کو ڈسکس کریں 
  • موجودہ طرز کے امتحانات کو بالکل ختم کر دیا جائے!

درجِ بالا انداز المکتب مدرسہ اور المکتب اسکول دونوں کے لیے ہو۔

ہوم ورک کم سے کم بلکہ جہاں تک ممکن ہو ختم کر دیا جائے۔! اسکی جگہ المکتب نظامِ تعلیم ہی میں یہ انتظام کیا جائے کہ جن بچوں کو اضافی مدد کی ضرورت ہے! انہیں مدد فراہم کی جائے۔  بڑے بڑے بستے ختم کر دئیے جائیں اور صرف وہی کتب دی جائیں! جو ضرورت کے مطابق ہوں۔ جماعت کا شیڈول سال شروع ہونے سے پہلے ہی واضح کر دیا جانا چاہیے! تاکہ طلبا کو علم ہو کہ کس دن کونسا مضمون ہے اور اسکے مطابق کتب اٹھائی جائیں۔

یہ نظامِ تعلیم سارے ملک میں یکساں ہونا چاہیے۔! سرکاری سرپرستی میں اساتذہ اور معلموں کو ہر سال اپ ڈیٹ کیا جائے۔! ان کی اپنی تربیت پر خاص خیال رکھا جائے اور انہیں نئے تعلیم سے بہرمند کیا جائے۔! جس طرح طلبہ کی رپورٹ تیار کی جائے ایسے ہی ہر مکتب کی انتظامیہ اساتذہ اور معلموں کی بھی !فرداً فرداً رپورٹ تیار کر  کے سرکار کے ڈیٹابیس میں جمع کرائے۔

والدین کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اگر کسی استاد یا معلم سے نالاں ہیں تو اسکی شکایت کر سکیں۔! کسی بھی قسم کی سزا مکاتب سے قانوناً ختم کر دی جائے مگر استاد، معلم اور انتظامیہ کا احترام، سرکاری امارات کا خیال رکھنا طلبہ پر فرض کیا جائے! اور جو اس احترام کو قائم نہ رکھ پائیں انکے لیے اسپیشل تربیتی کیمپ لگایا جائے۔

المکتب کے طلبہ کو سیر و سیاحت کے لیے ملک بھر کے علاقوں میں لے جایا جائے،! انکے لیے خاص تربیتی کیمپ قائم کیے جائیں جہاں پر انہیں حالات کے مطابق اپنے مدد آپ کے تحت سے جینا سکھایا جائے۔

یہ نظامِ تعلیم کنڈرگارٹن سے لیکر دسویں جماعت تک ہونا چاہیے۔ اس سے طلبا کو ہائیر ایجوکیشن کے لیے تیار کیا جائے۔ ہائئر ایجوکیشن کے لیے بھی از سرِ نو انتظام کیا جائے۔

پرائیویٹ اسکولوں کا نظام بھی اس وقت تک قابلِ قبول نہ سمجھا جائے جب تک وہ سرکار سے تصدیق شدہ نہ ہو۔

علم کے معاملے میں ہم نے 70 سال سے لاپروائی برتی ہے۔! اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ہمارا ایک ایک بچہ تعلیم سے بہرہ مند! نہیں ہوتا ہم دنیا کی فیلڈ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

Education System for Pakistan, Pakistan Primary Secondary Education, Madrissah, Schools in Pakistan.

بقلم: مسعودؔ

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW