اردوشعراویکی

میرزا مظہر جانِ جاناں

میرزا مظہر جانِ جاناں

میرزا مظہر جانِ جاناں

اردو شعرا – ویکی

میرزامظہرجانِ جاناں

عرصہ: 1699 تا 1781

میرزامظہرجانِ جاناں ایک بلندپایہ صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔

آپ کے والدبنام میرزاجان سلطان شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی فوج کے ایک اعلیٰ آفیسر تھے۔  جب میرزامظہر کی پیدائش کی خبرآپ کو ملی تو آپ اس وقت شہنشاہ کے دربار میں تھے۔ عالمگیر نے یہ خبرسن کر کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے چونکہ باپ کا نام  میرزا جان ہے تو ہم اس بچے کا نام میرزا جانِ جان رکھتے ہیں۔ مگر عوام الناس میں یہ جانِ جاناں مشہور ہو گیا۔

گھر کی تربیت کا اثر تھا کہ آپ نقشبندی سلسلے سے منسلک تھے اور نقشبندی سلسلے کے تحت ہی آپ نے مظہریہ شمسیہ کو متعارف کروایا۔

شیخ محمد طاہر بخشی کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش رمضان المبارک 1111 کی ہے۔ آپ کالاباغ، ملوا، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ حاجی افضال سیالکوٹی سے حدیث اور حافظ عبدالرسول دھلوی سے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ نورمحمدبدایونی کی نسبت سے نقشبندی سلسلے میں داخل ہوئے۔

میراجانِ جاناں کو فارسی کی بجائے اردو میں شاعری کی ترغیب دی گئی، کیونکہ اس دور میں یہ  خیال عام ہو رھا تھا کہ فارسی کے دن گنے جا چکے ہیں اور اردو عنقریب سرکاری زبان ہو جائے گی۔ میرزاجانِ جاناں نے صوفیانہ علم پر کئی ایک خطوط بھی لکھے۔

میرزا جانِ جاناں کے مریدین میں مشہور حنفی عالم قاضی ثنااللہ پانی پتی شامل ہیں۔ قاضی صاحب نے  مشہور تفسیر القرآن لکھی جس کا نام تفسیرِ مظہری ہے۔  میرزا ہی کے سلسۂ تعلیم میں ایک اور بڑا نام ابنِ العابدین اور علامہ الوسی بھی شامل ہیں۔ میرزامظہرجانِ جاناں کے جانشین عبداللہ  بالقب شاہ غلام علی دھلوی ہیں جنہیں بہت بڑی تعداد کے نقشبدی تیرہویں صدی کا مجدد مانتے ہیں۔

میرزامظہرجانِ جاناں کو 7 محرم الحرام کو ایک شیعہ نے گولی مار کر سخت زخمی کر دیا۔ اس وقت انکی عمر 80 سال سے کچھ اوپر تھی۔ 10 محرم الحرام کو آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ  صوفی کے سنہرے سلسلے سے تعلق رکھتے تھے جس میں شیخ احمد سرہندی جو گیارہویں صدی کے مجدد مانے جاتے ہیں، آتے ہیں۔

آپ کی تصانیف میں:
– دیوانِ مظہر
– خریطہ جواہر
– مکاتیب کے مختلف مجموعے
– مجموعہ اردو اشعار
– متفرق اور مختصر نثری تحریریں
– ملفوظات

میرزا مظہر جانِ جاناں

مسعودؔ

logo

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW