اردوشعراویکی

مرزامحمدرفیع سودا

مرزامحمدرفیع سودا

Mirza Muhammad Rafi Sauda

اردو شعرا – ویکی

مرزامحمدرفیع سوداؔ

عرصہ: 1713 تا 1781

مرزامحمدرفیع سودا اردو زبان کی ایک عالمگیر شاعر و استاد تھے۔ آپ کا نام اردو شاعری کے ان شعرأ حضرات میں ہوتا ہو جن کا اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے کلام سے اردو کی ساخت کو پذریرائی ملی۔

پیدائش

آپ کے والد مرزا محمد شفیع کا تعلق کابل سے تھا۔ آپ ایک تجارت پیشہ بزرگ تھے جو تجارت کے سلسلے میں مختلف بلاد گھوما کرتے تھے۔ والد بزرگوار کو دھلی کی آپ و ہوا اسقدر موافق آئی کہ یہی کے ہو کر رہ گئے۔ اپنے مستقل ٹھکانہ دھلی کی سرزمین کو بنا لیا۔ اور مرزا محمد رفیع کی پیدائش بھی دھلی ہی میں ہوئی۔ آپ پیدائش کا سن 1713 عیسوی بتایا جاتا ہے۔

دھلی ہی میں تعلیم ور تربیت ہوئی۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا اور جب ولی دکنی نے دھلی کا دورہ کیا  اور انکے ریختہ یعنی اردو کی شاعری نے دھوم مچا دی تو ہر کسی کے دل میں اردو شاعری کی محبت جاگی۔ یہی سے مرزامحمدرفیع سودا نے بھی اردو کا ذریعۂ شاعری بنایا۔

شاعری

مرزامحمدرفیع سودا نے شاعری کو اپنایا تو اپنا تخلص سودا چنا۔ اور اپنے لیے پہلے استادِ محترم کے طور پر سلیمان قلی خان وداد کو چنا۔ اور بعد میں شاہ حاتم سے اصلاحات لیتے رہے۔

سوداؔ تخلص کی نسبت مولانا آزاد نے ایک دلچسپ سبب بتایا ہے کہ یا تو یہ اپنے والدگرامی کی تاجرانہ طبیعت کے موافق ‘سودا’ رکھا یا پھر اس جنونِ عشق ہے جس پر ایشیائی شاعری کا دارومدار ہے اسکی نسبت سے ‘سودا’ تخلص رکھا۔

سودا کی ابتدائی شاعری بھی فارسی میں بہت تھی۔ فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں مشق جاری رکھی اور پھر جب خان آرزو نے ترغیب دی کی فارسی کی نسبت اردو کو اپنی مرکزی سوچ بنائیں تو مرزامحمدرفیع سودا کی ساری توجہ اردو میں ہو کر رہ گئی۔

مرزاسودا کی اردو شاعری کی ایسی شہنائی گونجی کی اسکے لے بادشاہِ وقت جو بذاتِ خود فارسی گو شاعر تھے ان کے کانوں تک جا پہنچی۔ بادشاہ شاہ عالم نے سودا کو بلا بھیجا اور ان سے اپنے کلام کی اصلاح کی گزارش کردی یوں سودا بادشاہ کے استاد مقرر ہو گئے۔

مگر کچھ ہی عرصہ بعد بادشاہ سے کچھ ناقاچی چل نکلی اور دربار کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس وقت دلی عیش و عشرت کی دلی تھی۔ رونقیں، عروج، دولت و فرحت ہر طرف تھی، کئی ایک قدردان ایسے شعرا کے لیے بیقرار پھرتے تھے، مرزامحمدرفیع سودا کے قدردان کم نہ تھے۔

ہجرت اور دربدری

مرزامحمدرفیع سودا کی شہرت کا ڈھنکا دور دور بج رھا تھا۔ فیض آباد جہاں اودھ کا حکمران صوبہ دار نواب شجاع الدولہ نائب سلطنت تھا۔ شجاع الدولہ کے دربار سے ہزاروں امیر و غریب اور ہنرمند و بے ہنر وابستہ تھے اور اپنی روزی رزق تلاش کرتے تھے۔ شجاع الدولہ نے مرزارفیع سوداؔ کو طلب کر لیا مگر مرزا سودا جو اس وقت دلی کی رنگینوں میں کھوئے ہوئے تھے اور ایک سے بڑھ کر ایک امیر قدردان مل جاتا تھا، وہیں خوش تھے لہٰذا انکار کر دیا۔

مگر گردشِ دوراں نے ایسی کروٹ بدلی کہ مرہٹوں نے سر اٹھایا اور سارے ہندوستان میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ دلی بھی نہ بچ سکی اور شہر اجاڑ سنسان اور تباہ حالی کی جانب بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ جو کبھی ڈھونڈنے سے غریب غربا ڈھونڈا کرتے تھے اب خود نانِ شبینہ کے لیے ترسنے لگے۔ 

بھوک اور افلاس نے جب اپنا رنگ دکھانا شروع کیا تو مرزاسوداؔ بھی ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ مرزاسودا کی عمر اس وقت قریب قریب 60 سال تھی اور فرخ آباد جا پہنچے، جہاں اس وقت نواب احمدبخش خان بنگش مسند آرا اور انکے دیوانِ اعلیٰ نواب مہربان خان رند تھے۔ مہربان خان بذاتِ خود علم و ہنر اور شعروسخن کے دیوانے تھے۔ انہوں نے سودا کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ رند میرسوز کے ساتھ ساتھ مرزاصاحب کے بھی شاگرد ہو گئے اور یوں مرزا سودا کے دن نیارے گزرنے لگے۔

ہجرتِ نو

سن ہجری 1185 بمطابق 72-1171 نواب احمدبخش خان کا انتقال ہو گیا اور انکی حکومت کا سارے کا سارا دفتر برخاست ہو گیا۔ مرزاسوداؔ نے ایک بار پھر اپنا رختِ سفر باندھا اور فرخ آباد کو الوداع کہہ کر فیض آباد پہنچے اور زمرہ ملازمین میں داخل ہو گئے۔ نواب شجاع الدولہ کے انتقال کے بعد نواب آصف الدولہ حکمران بنے اور لکھنؤ کو اپنا درالحکومت بنایا۔ اور مرزاسودا کو بھی حکومت کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہونا پڑا۔

لکھنؤ میں دلی کی طرح شعر و شاعری کا ستارا انتہائی بلندیوں پر تھا اور اعلیٰ پائے کے شعراأ جن میں مصحفی، قمرالدین منت جیسے موجود تھے۔ مرزا سودا کی شاعری نے یہاں بھی عروج پکڑا اور اپنے کمال کہ پہنچی۔ ساٹھ پینسٹھ سالہ مرزاسودا کی شاعری پختہ اور اعلٰی مقام پر تھی کہ آصف الدولہ نے انہیں ملک الشعرأ کا خطاب عطا کیا اور 6000 پیشن مقرر کی۔

انتقال

مرزامحمدرفیع سودا کا انتقال ہجری سال کے مطابق 1195 بمطابق 81-1780 عیسویں میں لکھنؤ میں ہوا۔

تخلیقات

  • مثنوی در ہجوِ حکیم غوث
  • مثنوی در ہجوِ امیر دولت مند بخیل
  • مثنوی در تعریفِ شکار
  • مثنوی در ہجوِ پل راجن نری پت سنگھ
  • مثنوی در ہجوِ سیڈی فولاد خان کوتوالِ شجاع آباد
  • مثنوی در ہجوِ فدوی مطواطنِ پنجاب کی داراصل بقل بچاۃ بد
  • مثنوی در ہجوِ چپک مرزا فیضو
  • قصیدہ درویش کی ارادہ زیارت کعبہ کردہ بد
  • مخمص شہر آشوب
  • قصیدہ در مدہِ نواب وزیر عماد الملک

Mirza Muhammad Rafi Sauda

مسعودؔ

logo

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW