بیاضِ وفا – حصہ اوٌل
[spacer size=”5″]گوشِ الطاف سے محروم صدائیں میری
جذبِ تاثیر سے مایوس دعائیں میری
اِک نظر دیکھ، نظر پھیر کے جانے والے
اب میرے حال پہ روتی ہیں وفائیں میری
چھپے ہیں اس میں نئی آرزو کے تاج محل
قبائے درد کا دامن نہ تار تار کرو
کبھی تو میری طرف دیکھ لو محبت سے
کبھی تو میری وفاؤں کا اعتبار کرو
وفا کے نام پر کچھ شعبدہ گر !
چرا لیتے ہیں ہاتھوں کی حنا تک
جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہ ہوں مومنؔ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ثاقبؔ بڑی توقیر ہے اِس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے گہر ہے
ثبوت آپ نہ مانگیں میری وفاؤں کا
متاعِ چاکِ گریباں ہنوز باقی ہے
صدمے جھیلوں، جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں
لیکن تیرے پاس وفا کا کوئی بھی معیار نہیں
اے کاش انتظار کی گھڑیاں نہ ختم ہوں
ورنہ تیری وفا کا بھرم ٹوٹ جائیگا
میری وفا میرے وعدے کا اعتبار کرو
ملن قریب ہے تھوڑا سا انتظار کرو
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
بیوفا تجھ سے شکایت ہے ستم کی بے جا
کیجیے اس سے کہ جو آگاہ وفا سے کچھ ہو
آغازِ وفا، انجامِ وفا، دو وقت یہ نازک ہوتے ہیں
کل ہم سے زمانہ برہم تھا، آج ان سے زمانہ برہم ہے
اِک شمع دریچے کی چوکھٹ پہ جلا رکھنا
مایوس نہ پھر جاؤں ہاں پاسِ وفا رکھنا
امیدِ عہدِ وفا اور اِن بتوں سے شکیلؔ
جو بھول کر بھی کسی سے وفا نہیں کرتے
انتخاب و پیشکش: مسعودؔ
Add Comment