Hajj Controversy
مسلم لیگ نون کے حکومت کے دور میں حاجیوں کے لیے سبسڈی تھی۔ جسکے تحت حج کے اخراجات میں تقریباً ایک لاکھ روپیہ حکومت ادا کرتی تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے وہ سبسڈی ختم کر دی ہے۔ اور اب حجاج کو سفرِ حج کے تمام اخراجات خود برداشت کریں ہونگے۔
اس پر اپوزیشن نے حسبِ عادت خوب سیاست کی اور بکاؤ میڈیا نے خوب پرچار کیا۔ سوشل میڈیا پر بھی خوب شور و غل ہوا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو نماز و روضہ بھی شاذ و نادر ہی کرتے ہوں وہ بھی خوب سرگرم رہے۔
حج پر سبسڈی کیسے دی گئی تھی؟ اس کے دو ہی طریقے ہیں: اول تو یہ کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دی جائے یا پھر آئی ایم ایف یا وورلڈ بنک یا کسی دوسرے ادارے سے قرض لیکر اس کا ایک حصہ اس مقصد کے لیے مختص کر دیا جائے۔ بظاہر حاجیوں کو اس سے کیا غرض کہ ملنا والا پیسہ کہاں سے آیا؟ مگر شرعاً اس کی قطعی کوئی گنجائش نہیں!
اسلام میں جتنی بھی عبادات ہیں، ان میں حج اور زکوٰۃ کا تعلق انسان کے صاحبِ استعاعت ہونے سے ہے۔ اگر آپ کے حالات اس بات کی اجازت نہ دیں تو قرض پر نہ ہی تو حج ہوتا ہے نہ ہی زکٰوۃ۔ لہٰذا جب تک آپ کے پاس پیسہ نہ ہو اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو عبادت میں بھی استثنیٰ دی ہے۔ ذرا سوچیں عبادت میں استثنیٰ!!!
مگر یہ قوم عجیب الٹے دماغ کی قوم ثابت ہوئی ہے۔ جو بات ان کے حق میں بہتری کے لیے کی گئی ہے اس پر بھی انکو اعتراض ہے۔ انہیں اس بات پر یقین نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ انہیں سبسڈی کے ساتھ حج کی استعداد دے سکتا ہے تو قرض والی سبسڈی کے بغیر کیوں نہیں؟
اس قوم کو شاید اس سے بھی غرض نہیں کہ یہ مسلم لیگ نون ہی تھی جس نے حاجیوں کے فنڈز کیساتھ بری طرح کرپشن کی! لیکن نہیں اس قوم کے لیے پیسہ اہمیت رکھتا ہے چاہے وہ جیسے بھی ملے۔
ایک عام مسلمان کی سب سے اہم عبادت نماز، روزہ ہے، اسکے ساتھ زکٰوۃ اور پھر کہیں جا کر حج! حکومت نے آپ کی عبادت کو درست کرنے کے لیے ایک قدم اٹھایا ہے اسکو قبول کیجیے بجائے چور، ڈاکو اور لٹیرے سیاستدانوں اور ایک بکاؤ میڈیا کے بڑھکانے پر طیش میں آنے سے!
Hajj Subsidy Controversy
بقلم : مسعود
Add Comment