میرے رشکِ قمر تیری پہلی نظر
.غزل
[spacer size=”10″]
میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آگیا
برق سی گر گئی کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزا آگیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا تو نے ایسی پلائی مزا آگیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا بزمِ رنداں میں ساغر کھنکنے لگے
میکدے پہ برسنے لگی مستیاں جب گھٹا گھِر کے چھائی مزا آ گیا
بےحجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ اُنکی لڑی یوں میری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آگیا
آنکھ میں تھی حیا اور ملاقات پر سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ ایسے گردن جھکائی مزا آگیا
شیخ صاحب کا ایمان بِک ہی گیا دیکھ کرحسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے لٹ گئی پارسائی مزا آگیا
اے فنا شکرہے آج بعدِ فنا اس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے میری قبر پر چادرِ گل چڑھائی مزا آگیا
[spacer]
.فناؔ
میرے رشکِ قمر تیری پہلی نظر
Add Comment