خواب ساحل کے کیوں دیکھے
خواب ساحل کے کیوں دیکھے، جب بھنور سامنے تھا
میں پیاسا کیوں کھڑا رہا جب کہ سمندر سامنے تھا
اداسیوں کا مداوا کیسے ہو جب مسیحا ہی نہ چاہے
زخم ڈھونڈتے رہ گئے، زخموں کا گھر سامنے تھا
بڑے آئے تھے بن کے ہمدرد، جو درد ہی نہ بٹا سکے
بات وفا کی چلی تو مجبوریوں کا دفتر سامنے تھا
آج اگر ملنا گوارا نہیں تو کل تک اے قاصد!
ہر موڑ پہ وہ اجنبی کھڑا کیونکر سامنے تھا
اہلِ گلستان میں بحث تھی کسی رحمدل سے متعلق
ہم جو دیکھنے گئے اسے تو اک پتھر سامنے تھا
دکھوں کی رہگذر میں ہم ہی ہمسفر تھے اسکے
آج وہ دامن چھڑا گئے، جب خوشیوں کا در سامنے تھا
رات کے اندھیرے میں وہ سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا
دن کے اجالے میں جو ایک ہی ہمسفر سامنے تھا
بہت سے نگر گھومے کہیں دل اسقدر نہ دھڑکا
آج دھڑکنِ دل بھی چھن گئی، جب صنم کا نگر سامنے تھا
کس طرح عہد نبھاؤں ان کو بھول جانے کا
ہر طرف سے نگاہ چرائی، وہ مگر سامنے تھا
وفاؤں کا سبق کِس سے سیکھوں اے مسعودؔ ؟
جس محفل میں گیا بے وفائیوں کا مظہر سامنے تھا
میں پیاسا کیوں کھڑا رہا جب کہ سمندر سامنے تھا
اداسیوں کا مداوا کیسے ہو جب مسیحا ہی نہ چاہے
زخم ڈھونڈتے رہ گئے، زخموں کا گھر سامنے تھا
بڑے آئے تھے بن کے ہمدرد، جو درد ہی نہ بٹا سکے
بات وفا کی چلی تو مجبوریوں کا دفتر سامنے تھا
آج اگر ملنا گوارا نہیں تو کل تک اے قاصد!
ہر موڑ پہ وہ اجنبی کھڑا کیونکر سامنے تھا
اہلِ گلستان میں بحث تھی کسی رحمدل سے متعلق
ہم جو دیکھنے گئے اسے تو اک پتھر سامنے تھا
دکھوں کی رہگذر میں ہم ہی ہمسفر تھے اسکے
آج وہ دامن چھڑا گئے، جب خوشیوں کا در سامنے تھا
رات کے اندھیرے میں وہ سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا
دن کے اجالے میں جو ایک ہی ہمسفر سامنے تھا
بہت سے نگر گھومے کہیں دل اسقدر نہ دھڑکا
آج دھڑکنِ دل بھی چھن گئی، جب صنم کا نگر سامنے تھا
کس طرح عہد نبھاؤں ان کو بھول جانے کا
ہر طرف سے نگاہ چرائی، وہ مگر سامنے تھا
وفاؤں کا سبق کِس سے سیکھوں اے مسعودؔ ؟
جس محفل میں گیا بے وفائیوں کا مظہر سامنے تھا
خواب ساحل کے کیوں دیکھے
Add Comment