Meri Shaairi: Meri Khushi Per Gham Key Baadal
میری خوشی پر
میری خوشی پر غم کے بادل چھائے ہیں‘ برسے ہیں
سکون کے اک پل کے لیے یہ نین نگوڑے تڑپے ہیں‘ ترسے ہیں
اے کاتبِ تقدیر تو ہی بتا دے کب تک ہو گی ستم ظریفی
میں بھی آخر بندہ ہوں تیرا‘ میرے لیے کیوں بدنصیبی
تیرے اس منطق کو میں مذاق کہوں یا دردمندی
یا تو ہلاھل مجھ کو پلا دے یا پھر کر دے آنسوبندی
نام پہ تیرے آس لگائے بیتے لاکھوں عرصے ہیں
یہ بات واضح ہے اے دل تیرا یہاں کوئی سہارا نہیں
بیچ بھنور وہ ناؤ ہے تو جس کا کوئی کنارا نہیں
ڈبو دے اب یہ کشتی دوراں اس کے سوا کوئی چارا نہیں
ہمیں کوئی چاہے گا کیونکر؟ اس چمن میں کوئی ہمارا نہیں
کس کا ہے انتظار ہمیں ہم کس کے منتظر سے ہیں
چھوڑ اب یہ وصل کی باتیں‘ وصل تجھے نایاب ہے
تو اک ایسا دریا ہے کہ‘ ساحل جس کا کمیاب ہے
تجھ کو جینا ہے آسوں میں‘ آسیں ڈھلی نراسوں میں
تیرا دل ہے شمع جیسے‘ جلتی ہے جو دلاسوں میں
امید پر ہی تو جیے جا‘ دن خوشیوں کے دور تر سے ہیں
سکون کے اک پل کے لیے یہ نین نگوڑے تڑپے ہیں‘ ترسے ہیں
میری خوشی پر غم کے بادل چھائے ہیں‘ برسے ہیں
مسعودؔ
Meri Shaairi: Meri Khushi Per Gham Key Baadal
Add Comment