کہ وہ آرہی ہے تیری یادگوری
زندگی کی تلخیوں کو سینے لگا کر جی لوں گا
جو زہر ملا ہے تنہائی کا مجھے پی لوں گا
کن راہوں پہ چل رہے تھے، کن راہوں پہ چل نکلے
سب شمعیں ہو گئیں گل، جب میرے داغ جل نکلے
میں تو اداس تھا ہی مگر یہ قلم کی اداسی
نکلے جس کے لیے ان ہونٹوں سے اک دعا سی
ابھی اس سے کرنی ہیں محفلیں آباد گوری
…کہ وہ آرہی ہے تیری یادگوری
ستاروں کی خاموشی ہے اور چاند کا خرام ہے
اس آباد ویرانے میں میسر سکون برائے نام ہے
دل کی اداسیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں مسعودؔ
جسے ڈھونڈتا ہے محفل میں وہ دل میں ہے موجود
کیوں سلگتا رہتا ہے دن رات مانندِ شرار
جلتا بھی نہیں مسلسل اور بجھتا بھی ہے بار بار
تیری آنکھوں میں مقّید ہوں کر دے آزاد گوری
…کہ وہ آرہی ہے تیری یادگوری
آج تیری یاد کا استقبال کریں گے ہم
جتنے بھی دل میں تھے بھول جائیں گے سب غم
اس یاد کو بنا کر ایندھن، جلائیں گے دل کا چراغ
ہو جائیں گے خود خاک، نہ لگے گا تجھ پہ داغ
اس قدر تجھے چاہیں گے کہ فنا ہو جائیں گے
عشق زندہ رہے گا، ہم بھی زندہ رہ جائیں گے
پھر تڑپائے گی تجھ کو بھی میری یاد گوری
…کہ وہ آ رہی ہے تیری یاد گوری
تڑپے گی جب تو ہو کے بے چین گوری
کرے گی یاد وہ لمحے سہانے دن رین گوری
کرے گا دل بے قرار کہ چل یار کے دوارے
ڈھونڈتی پھرے گی ان ویرانوں میں مارے مارے
پر ساجن نہ تجھ کو نظر آئے گا گوری
دل ہو کے دیوانہ تیرا، تجھے تڑپائے گا گوری
میرے پیار میں ہو کے بے سدھ کرے گی فریاد گوری
…کہ وہ آرہی ہے تیری یادگوری
Add Comment