امید
یوں لگتا ہے جیسا پاکستانی لوگ آخرت سے منکریا غافل ہوچکے ہیں۔! عوام ’’جو۔ ہے۔ جیسا۔ ہے۔ بہتر۔ ہے‘‘ کہ تحت زندگی گزار رہے ہیں۔!
کسی کو آنے والے کل کی فکر نہیں کہ کل کیا لے کر آ رہی ہے۔ہر سُو اندھیرا چھایا ہوا ہے۔! ہم دِن بدن اخلاقی، مذہبی، روحانی، معاشی، علمی، فنی اور معاشرتی تباہی کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں! مگر کسی کو قطعاً پروا نہیں حقیقت میں آج بھی غاروں میں رہنے والی مخلوق کی طرح ہیں! فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہم گھروں میں رہتے ہیں،! مگر ہمارے گھر بھی غاروں جیسے ہیں: اندھیرنگریاں!
عام سطح کے لوگوں میں رہنے، ان کے حالات جانچنے! اور عوام سے بات کرنے کے بعد جب میں نے حالات کو انتہائی قریب سے دیکھا! تو میں اِس نتیجے پر پہنچا! کہ امید کی ایسی کوئی کرن پاکستان میں موجود نہیں جس پر ہم اپنے مستقبل کو روشن کر سکیں!
کم سے کم میں اپنی آنے والی نسلوں کو جھوٹی امیدوں کے سہارے نہیں رکھ سکتا۔!
پاکستان بدحالی، بدامنی اور افراتفری کی پستیوں کی جانب بڑھتا چلاجا رہا ہے! مگر ہمیں اِس کی کوئی فکر نہیں! جو بات میں نے کچھ سال پہلے کہی تھی، اب حالات کو خود پر پرکھنے کے بعد اُسی بات پر قائم ہوں کہ پاکستان کی آزادی کے لیے انقلاب کی سخت ضرورت ہے۔!کوئی آیت اللہ روح اللہ خمینی جیسا بندہ سامنے آئے جو ملک میں خونی انقلاب برپا کرے۔!
میرا پیغام یہی ہے کہ خونی انقلاب کے سوا پاکستان کی فلاح کا اور کوئی چارہ نہیں! پاکستان کو بچانے کے لیے سرمایہ داروں کا اور سرمایہ دارانہ سوچ رکھنے والے طبقے کاسر قلم کرنا اشد ضروری ہو گیاہے۔! اِس کے سوا ہمارے ملک میں فلاح و بہبود کا کوئی پودا پروان نہیں چڑھے گا۔!
ملک میں روزانہ سینکڑوں صنعتی یونٹ بجلی کی کمی کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں،! ملک کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، قرضے لیے جارہے ہیں! اور اپنے گھر بھرتے چلے جا رہے ہیں،! ایسے خبیثوں کا سر قلم ہونا ہی پاکستان کی بقا ہے! کیونکہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں،! پاکستان میں ترقی کے بیشمار مواقع ہیں، پاکستان ایک جنت ہے،! مگر یہ جنت تباہ ہو رہی ہے، اگراِس جنت کو بچانا ہے تو جھوٹی امیدوں کو ختم کر کے خود کو انقلاب کے لیے تیار کر لیجیے۔!
موت کا خوف دل سے نکال دیجیے اور سروں پر کفن باندھ لیجیے۔ انقلاب کا سبق عام کردیجیے اور انقلابی سوچ لے کر ایک ایسے ریشمی دھاگے سے بندھ جائیے جو سرمایہ داروں کے لیے پھانسی کا پھندہ بن جائے۔!
حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ ہمارے مستقبل کو اب امید کی کرنیں روشن نہیں کریں گی۔! بلکہ روشنی کے لیے مٹی کا دیا خریدنا پڑے گا۔
یہی دیا ہمارے گھروں میں روشنی دے گا بالکل اُسی طرح جیسے آج سے سو، دو سوسال پہلے گھروں میں مٹی کے دئیوں کا بندوبست کیا جاتا تھا۔! علمی اور اخلاقی ترقی کے اِس دور میں بھی ہمیں ایسا ہی کرنا ہو گا! ورنہ ہمارے گھروں میں پھر سے اندھیرا ہو جائے گا ۔ دیا جلائے رکھنا!
تحریر مسعود جولائی ۲۰۰۹
Add Comment