خطرے کی گھنٹیاں
کسی کو اپنے حقوق یا اپنے فرائض کی فکر نہیں۔! جب کسی قوم کو اپنے حقوق اور اپنے فرائض کا علم ہی نہ ہو! تو وہ تہذیب کے دائرے میں کیسی داخل ہو سکتی ہے؟
میرے پاس میرا ایک کزن آیا۔! ایک سولہ سترہ سال کا کم سِن جو آرمی جوائن کرنے کی تیاری میں تھا۔! مجھے کہنے لگا:
’’ سریہ بتائیں جھیل سیف الملوک کہاں ہے؟‘‘
’’بیٹا جہاں تک میرا علم ہے، یہ جھیل وادئ کاغان میں ہے جو شمالی مانسہرہ کے علاقے میں ہے‘‘
’’ نہیں انکل جی، یہ جھیل وہاں نہیں، یہ جھیل کوئٹہ کے پاس بلوچستان میں ہے‘‘
’’نہیں بیٹا جی، یہ وہاں نہیں‘‘
’’ سر جی میرے اُستاد نے کہا کہ ہے کہ یہ جھیل بلوچستان میں ہے‘‘
’’کیا؟‘‘!!!! (میرا منہ کھلا رہ گیا)۔
’’جی سر! میں نے بھی یہی لکھا کہ شمالی علاقوں میں ہے، مگرہمارے اُستاد نے اُسے غلط کرکے بلوچستان لکھا‘‘
’’ میں آپ کے اُستاد کو اپنی جیب سے خرچہ دیتا ہوں،! اُنہیں کہیں کہ مجھے بلوچستان لے جائیں اور جھیل سیف الملوک وہاں دکھائیں!‘‘
’’سر جی ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں تو یہی پڑھایا جا رہا ہے‘‘!
میں نے اُس بچے سے اُسکے سلیبز کی کتاب مانگی۔ سرسری طور پر دیکھنے سے میں نے اُس کتاب کے فقط دو صفحات پر پانچ غلطیاں نکالیں!!! اور اِس سوچ میں پڑ گیا کہ جس ملک کا نصاب اِس قدر جھوٹا ہے،! وہاں پر آپ عالم کیسے پیدا کرسکتے ہیں؟! وہاں سائنسدان کیسے پیداکیے جاسکتے ہیں؟! وہاں مدبر کیسے پیدا کیے جاسکتے ہیں؟! سچ کڑوا ہے اور سچ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم بھی اُسی بدتری کا شکار ہے! جس کا شکار باقی سب کچھ! ہمارا اللہ بھی شاید اب حافظ نہیں رہا!
خطرے کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی ہیں!
Add Comment