Current Affairs Humara Moashra

Aazadi Aur Pakistani Zameer

Aazadi Aur Pakistani Zameer
Aazadi Aur Pakistani Zameer

14 اگست – آزادی

۱۴ اگست آیا اور آکرچلا گیا! ہماری آزادی کے اکسٹھ سال مکمل ہوئے!

جا بجا جلسے جلوس ہوئے، تقریریں جھاڑی گئیں،مہنگے مہنگے الفاظ کا سہار لیکر عوام کے دماغوں کو محصور کیا گیا۔
جا بجا اِس بات کا واویلہ کیا گیا کہ پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔! کتنے سروں کا نذرانہ پیش کیا گیاہے، کتنی شہ رگیں کٹوائی گئی ہیں، کتنی عصمتیں لوٹی گئیں! اور کتنی سہاگنوں کے سہاگ سپردِ تلوار ہوئے، کتنی ماؤں کے پیٹوں میں بن کھلی کلیوں کو برچھیوں سے چھیدا گیا! اور کیسی کیسی لہو کی ندیاں بہیں کہ ٹرینوں کی ٹرینیں خون میں نہلائی ہوئی لاہور ریلوے سٹیشن اور دوسرے سٹیشنوں پرآئیں!
Aazadi Aur Pakistani Zameer

سب مغالطہ آرائیاں!

بلکہ یہ پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیلنے کی ایک ایسی گھنوؤنی کوشش ہے جو سالہاسال سے استبدادی سوچ رکھنے والے طبقے نے ایک ایسی عوام پر روا رکھی ہے! جو خود سے سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں۔ ہر سال وہی الفاظ، وہی باتیں، وہی خوف، وہی تماشا!

تحفہ

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اللہ تبارک تعالیٰ کا عطا کردہ وہ تحفہ ہے! جو بغیر کوئی گولی چلے سیاسی مفاہمت کے میز پر محمد علی جناح کی اعلیٰ ترین قائدانہ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے! کہ سیاسی میدان میں اپنا حق کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔
حصولِ پاکستان کے لیے کوئی جنگ وجدل نہیں ہوئی! کسی قوم نے کسی دوسری قوم پر کوئی غاصبانہ قبضہ نہیں کیا، کسی ملک نے کسی دوسرے ملک پر عسکری یلغار نہیں کی جس کے نتیجے میں ملکوں کی تقسیم ہوئی ہو!
بلکہ یہ قائد اعظم اور ان کے سیاسی رفقأ کے اعلیٰ ترین سیاسی ظرف کا پھل ہے! اور اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو ہم پر۲۷ رمضان المبارک ۱۹۴۷کو نازل ہوئی۔
یہ بھی ایک تلخ ترین سچ ہے کہ تقسیم کے بعد قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوا ہے، تاریخ میں اُسکی مثال شاید ہی کسی دوسری جگہ ملے۔ شروع میں قتل و غارت کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ سو فیصد سچائی پر مبنی ہے بلکہ حالات اِس سے بھی ابتر تھے۔ برِصغیر پاک وہند وہ خطۂ ارض ہے جہاں پر لوگ آگ کی طرح تپتی ہوئی تربیت لیے ہوئے ہیں۔برصغیر میں (مذہبی، طبقاتی، خاندانی،لسانی،فرقہ وارانہ، معاشرتی، سماجی اور تہذیبی) دشمنیاں ایسی ہیں کہ ایک دشمن اگر کسی دوسرے دشمن کے پاس سے گزر جائے تو اُس قتل کر دیا جاتا رہا ہے، گالی گلوچ کرنا، ہاتھا پائی کرنا تو عام فعل ہے ۔ہمارے ہاں اُس وقت تک کسی کو مرد نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ گالی گلوچ کا استعمال نہ کرے! ہمارے ہاں قتل مرد کی شان سمجھا جاتا!ذرا پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں،انسان کا قتل کرنا ایسا ہی ہے گویا کو کیڑامکوڑا مارا گیا ہو، خون پانی سے سستا ہے!
Meri TehreAazadi Aur Pakistani Zameer

کدورتیں

وہ خطۂ ارض جہاں صدیوں سے ہندو، سکھ، اور مسلمان ساتھ ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔! انہیں اپنے آباؤ اجداد کے بسائے ہوئے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی،! اپنا رہن سہن، اپنی جائیدادیں تک چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑا! توجب وہ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرائے تو خون کی وہ ندیاں بہیں جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔
اورجن واقعات کو لے کر ہماری نوجوان نسل کے دماغ کی غلط تربیت کی جارہی ہے۔ ذہنی طور پر شکستہ قوم کے اِس قتل و غارت کی وجہ سے پاکستان کا حصول نہیں ہوا، بلکہ پاکستان کے حصول کی وجہ سے یہ قتل و غارت ہوئی ہے۔

تحفہ

ورنہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ محمد علی جناح جیسے اعلیٰ ظرف سیاسی لیڈرنے کبھی یہ نہیں کہا تھاکہ اگر ہمیں ہمارا مقصد حاصل نہ ہوا تو ہم سڑکوں پر نکل آئیں گے، ہم یومِ سیاہ منائیں گے، ہم بھوک ہڑتالیں کریں گے، دنگافساد کریں گے۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو اوسط درجے کے سیاسی لیڈر استعمال کرتے ہیں، محمد علی جناح اِن بُرائیوں سے پاک تھا!
پاکستان اُسکی اور اُسکے رفقأ کی انتھک سیاسی محنتوں کا نتیجہ ہے اِسے کسی قتل و غارت سے منسوب نہ کیا جائے!بلکہ ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم محمدعلی جناح کا سامنا کرسکتے ہیں؟
چلیں لمحہ بھر کو ہم یہ تصورکرہی لیتے ہیں کہ یہ سب قربانیاں حصولِ پاکستان کے لیے تھیں، تو پاکستان بنانے والوں نے توپاکستان بنا دیا اور چل بسے، قربانیاں دینے والوں نے اپنے لیے جنت خرید لی ۔ پھر کیا ہوا؟

بربادئ وطن

وہ ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، وہ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں میں آگیا جس نے شاید اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ایک mustسمجھ کر ناشکری کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے!
ہم نے اللہ کی کون کون سے نعمت کا شکر ادا کیا ہے جو ہم اپنی آزادی کی دیکھ بھال کرتے؟
اپنی آنکھوں کے سامنے ہم نے اِس ملک کو ٹکڑے ہوتے دیکھا ، ہم کچھ نہیں کر سکے، اپنے سامنے اِس ملک کو بار بار لٹتے دیکھا ہم نہیں بولے، اپنے سامنے مفادپرستوں کوملک کا نظام سنبھالتے دیکھا اور ’وقت کے ساتھ سمجھوتہ‘ سمجھ کر چپ سدھار لی۔
اپنے سامنے آئے دن اپنی بہو بیٹیوں کو بے آبرو ہوتے دیکھا اور ہمارا ضمیر میٹھی نیند سوتا رہا یہاں تک کہ ملک کی بچیوں کو عیاشیوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تاکہ اپنی جیبیں ڈالروں سے بھری جاسکیں!

جوش اور ہوش؟

ایک کافر جب نبی کریم ؐ کی ذاتِ مقدس پر حملہ کرتا ہے تو ہمارا خون جوش میں آجاتا ہے اور ہم بائیکاٹ پربائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر ہمارے گھر میں ہندوستانی فلموں سے پھیلنی والی عریانی کا وہ عالم ہے کہ کبھی مجرا دیکھنے کے لیے ہیرا منڈیوں کا رخ کیا جاتا تھا مگرآج کسی بھی میوزک فیسٹیول پر شریف گھروں کی لڑکیوں کا مجرا ایک عام فعل بن گیا ہے۔
ہمارے ڈراموں میں مجرے کیے جارہے ہیں کیبل پر فحش فلمیں چلتی ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
کہاں ہے ہماری باضمیر قوم، کہاں ہے آپ کے بائیکاٹ کرنے کا جذبہ؟ مگرنہیں ہم وہ زندہ ضمیر قوم ہیں جو سمجھتی ہے کہ فلموں کا کیا ہے، یہ تو چند گھنٹوں کی تفریح ہے!
ہم اگر فنکار ہوں تو خود کو اُس وقت تک نامکمل سمجھتے ہیں جب تک ہندوستانی فنکاروں کو اپنے ساتھ شامل نہ کرلیں، کیا معیار ہے ہماری زندہ ضمیری کاجو صرف چودہ اگست پر ہی بیدار ہوتی ہے اور ہندوستانیوں کے ڈھائے ہوئے مصائب یاد آتے ہیں؟
اور جو گھرو ں میں تفریح کے نام پر عریانی پھیلائی جارہی ہے، وہ قابلِ قبول ہے!
(اِس بار کوپن ہیگن میں جو ۱۴ اگست کی تقریب ہوئی اُس میں بھی انہی قربانیوں کا ذکر شدت سے کیا گیا جو شروع میں بیان کی گئی ہیں مگر جب گانے بجانے کی باری آئی تو ایک ہندوستانی کو سٹیج پر بلایا گیا ۔ کیا خوب پاکستانیت کا پرچار ہے!)

میڈیا

ہمارا میڈیا ہر بند سے آزاد ہو جاتا ہے! نئی نئی رسمیں دریافت ہونے لگتی ہیں!
ذرا یوٹیوب پر لاہور کے سٹیج ڈراموں میں ہونے والے حالات پر نظر ڈالیں، عریانی کا ایک بازار گرم ہے مگر ہمارے تماش بین ضمیر اسے انٹرٹینمنٹ سمجھ کر خاموش ہیں۔
یوٹیوب پر لڑکوں اور لڑکیوں میں پھیلتی ہوئی بے غیرتی پرنظر دوڑائیے۔
اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوسرے افراد کی ذاتوں کو سرِعام اچھالنا،! دوسروں کی عزتوں کو رسوا کرنا ہمیں ایک تفریح لگتا ہے،! جبکہ اپنی عزتوں کے نام پر ہم جانیں دے دیتے ہیں۔
ہم نے کنبہ پروری کی انتہا کردی ہے۔ محنت سے ہم دل چراتے ہیں،کوئی دوسرا کچھ ترقی حاصل کر لے تو اُس سے حسداِس انتہا تک کرنے لگتے ہیں کہ اُس کی ذات کو مسخ کردیتے ہیں۔
تعلیم سے دور بھاگتے ہیں اور چار لفظ سیکھ کر خود کو عالموں سے زیادہ عاقل سمجھ لیتے ہیں،! مذہب کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے! اور فرقوں پر کفر کے فتویٰ دیتے ہیں، ہم شخصیت پرست ہیں، عمل نہیں دیکھتے ،ہم ذخیرہ غوض ہیں، عوام کو ہر معاملے میں تکلیف دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

سرکار

ذرا پاکستانی سرکاری اداروں کی حالت دیکھیں جاکرہر بندہ جو کسی بھی عہدے پر ہو خود کو ناخدا سمجھتا ہے،! جہاں جہاں سے ہمیں اپنا فائدہ نظر آئے ہم رتی برابر دریغ نہیں کرتے،ہر معاشرتی برائی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھکر بھی خموش ہیں۔! باضمیری کی کیا عمدہ مثالیں ہیں ہمارے ہاں!
آسمانی آفات بھی ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی ہیں! اگر سیلاب میں مردہ لاشیں ہمارے پاس سے گزریں تو ہم لاش کی حرمت کو پسِ پردہ ڈال کر اُسکی جیب تلاشی کرتے ہیں،! ہاتھوں پر سے گھڑیاں اُتار لیتے ہیں، ظاہر ہے مرنا والا مر گیا، دولت اُس کے کس کام کی؟؟
ہمارے سامنے زلزلہ سے ایک دنیا تباہ ہوتی ہے۔! بستیوں کی بستیاں برباد ہوتی ہیں، خاندانوں کے خاندان اُجڑتے ہیں،! مگر ہم بُت بنے تماشا دیکھتے ہیں کہ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے!
امدادی رقوم سے پیسہ والا پھر سے امیر تر ہو جاتا ہے،! اور اصل حقدار ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی منتظرِ بہترئ فردا ہیں! اور مگر ہم اِس پر بھی اپنے ضمیروں کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ یہ کام ہمارا نہیں!

آزادی کے ساتھ پابندی!

ہماری تقریروں میں حصولِ پاکستان کے وقت دی گئی قربانیوں کی کتنی اہمیت ہے! اور اُس کے بعد جو اِس پاک سرزمین کے ساتھ ہم نے کیا ہے، وہ قطعاً قابلِ بحث نہیں!
آزادی کا مفہوم تو ہم نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔! ہمیں اگر ’روشن خیالی‘ کی دعوت دی جائے تو ہم اُس روشن خیالی کو عریانی میں بدل دیتے ہیں۔!
کسی نے کسی جگہ لکھا ہے کہ آزادی ہو تو جرائم پر قابو پانا آسان ہوتا ہے۔! میں اِس سوچ کے حق میں نہیں ہوں: آزادی اگر ملت کی آزادی ہے! تو اُس کے ساتھ بھی(!) کچھ پابندیاں بھی آتی ہیں۔
آزادی کا مفہوم یہ ہر گز نہیں کہ ہم خود کو ہر بند سے آزاد سمجھ لیں! ایک آزاد ملک کے بنائے ہوئے قوانین کا پاس نہ کریں!
مجھے ایک بار پاکستان کے دورے پر کسی نے ٹریفک اشارے کو کاٹنے! پراور میرا اُسے منع کرتے ہوئے،! کہا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے اور یہاں پر ہمارا قانون چلتا ہے،! ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں!
اگر ہر انسان اپنی مرضی کا مالک ہو تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں!  –  ایسے میں آپ کس آزادی کا راگ آلاپیں گے؟
آزادی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اپنا کام نکلوانے کے لیے ہم ہر برائی کو کر گزریں،! جو ہمارے مفاد کی راہ میں آئے اُسکا صفایا کروا دیں۔
درحقیقت ہم نے اپنی سوچوں کو ہر بند سے آزاد سمجھ لیا ہے! جبکہ علامہ اقبال کے نزدیک آزادئ خیال شیطان کی ایجاد ہے۔

جوابدھی

اپنے خیالات کو اتنی ہی آزادی دینی چاہیے جو اپنے مذہب، دین، معاشرے، ملک، اور ضمیر کی جوابدہ ہو سکے! اِس کے علاوہ ہر آزادی شیطانیت ہے! (مذہبی اور دینی حدود سے آزادی گناہوں میں ڈال دیتی ہے،! معاشرتی اور ملکی رسموں اور قوانین سے آزادی باغی اور مجرم بنا دیتی ہے! اور ضمیری آزادی غفلت اور خود فراموشی کی طرف لے جاتی ہے!)

پاکستان عوام کا ضمیر مردہ نہیں یہ بات ہم نے زلزلے والے دن بھی دیکھ لیا تھا!

جہاں اتنا اندھیرا ہے وہاں پر روشنی کی کرنیں بھی آرہی ہیں۔ انسانی ہمدردی میں ڈوبے ہوئے لاتعداد افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں۔ مگر یہ انفرادی کوششیں ناکافی ہیں۔

کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اجتماعی ضمیر ایک ایسی نیند سویا ہوا ہے! جس کا ہر راستہ ہمیں تباہی کی جانب لے جا رہا ہے۔! اگرزلزلے اور سیلاب کی صورتوں میں پیغامِ عذابِ الٰہی بھی اِس نیم مردہ ضمیر کو جگانے کے لیے کافی نہیں! تو میرا نہیں خیال کہ ہم کبھی بیدار ہوسکیں۔!

ایسے میں ایک مسیحا کا انتظار کیجیے!

کسی بات کا مجھے نہ دینا الزام میاں
میرا نہیں، دوسروں کا ہے یہ کام میاں
بکتی ہے تو بکے ناموس سرِ عام میاں
ہم تو بیٹھے ہیں درِ جاناں پہ سرِ شام میاں
ہو نہ جائے تم سے کچھ تلخ کلام میاں
اپنے الفاظ کو ڈالو تم کوئی لگام میاں
بند کرو فضول ہے یہ ترا پیغام میاں
اِس دیوانگی میں آئے نہ مرا نام میاں
’جیو اور جینے دو ‘کے ہیں ایام میاں
‘خموشی’ میں پاؤ تم بھی اپنا انعام میاں

 

مسعود کوپن ہیگن ۱۹ اگست ۲۰۰۸

Muhammad Ali Jinnah, Pakistan Independence Day, Jashn e Azadi, Jalsa Jaloos, taqseem hind, a division of India, Quaid e Aazam,

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW