بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
اب دھوپ بھول جاؤ کہ سورج یہاں نہیں
ایسی زمیں ملی ہے، جہاں آسماں نہیں
کاغذ پہ رات اپنی سیاہی بجھا گئی
کوئی لکیر تیرے میرے درمیاں نہیں
راز اب کھلا تری ناراضگی کے بعد
تو مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں
ہاں روشنی نہیں ہے مگر اس کی داد دو
ہر طاق میں چراغ ہے لیکن دھواں نہیں
جا میرا شعر لکھ دے گلابوں کی شاخ پر
چھولوں کے آس پاس اگر تتلیاں نہیں
میراؔ، کبیرؔ، چشتیؔ و نانکؔ کے نام کو
جو دیش بھول جائے وہ ہندوستاں نہیں
Add Comment