تنہا تنہا

اب جو کانٹے ہیں دل میں تمناؤں کے پُھول تھے

Ahmed Faraz
اب جو کانٹے ہیں دل میں تمناؤں کے پُھول تھے

اب جو کانٹے ہیں دل میں تمناؤں کے پُھول تھے
آج کے زخم پہلے شناؤں کے پُھول تھے

دشت غربت کچھ ایسا ہوا گل فشاں گل فشاں
جس طرح پُھوٹتے آبلے پاؤں کے پُھول تھے

تھی ہمیں کو بہت خارزار جنوں کی لگن
دوستو!ورنہ اقوال داناؤں کے پُھول تھے

غم کی لو سے دھڑکتے دلوں کے کنول بجھ گئے
دُھوپ میں کیسے کھلتے وہ جو چھاؤں کے پُھول تھے

برف زاروں میں کوئی اگر یہ سماں دیکھتا
جابجا نقش پاکوہ پیماؤں کےپُھول تھے

شہر میں حسن سادہ کو کانٹوں میں تولاگیا
بِک گئے کوڑیوں مول جو گاؤں کے پُھول تھے

زہر آگیں فضا بستیوں کی جنھیں کھا گئی
ہم فراؔز ایسے سنسان صحراؤں کے پُھول تھے

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

 

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW