ہم بھی خود دشمن جاں تھے پہلے
ہم بھی خود دشمن جاں تھے پہلے
تم مگر دوست کہاں تھے پہلے
اب وہاں خاک اُڑاتی ہے صبا
پُھول ہی پُھول جہاں تھے پہلے
اب جو دیوار بنے بیٹھے ہیں
صورت موج رواں تھے پہلے
کچھ شرابی کہ ہیں اب راد نیشں
رونق بزم معناں تھے پہلے
ہم کو ہیں آج غبار پس رو
منزل ہم سفراں تھے پہلے
اب کسے وضع محبت کا خیال
اور ہی لوگ یہاں تھے پہلے
اب تو خود پر بھی،نہیں زعم وفا
تجھ سے ہم شکوہ کُناں تھے پہلے
بن گیا قافلہ چلتے چلتے
ورنہ تنہا ہی رواں تھےپہلے
دولت غم تو میسر تھی فراز
اتنے مفلس بھی کہاں تھے پہلے
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment