تنہا تنہا

نشتہ گیسوئے شب تاب کہاں

Ahmed Faraz
نشتہ گیسوئے شب تاب کہاں

نشتہ گیسوئے شب تاب کہاں
آنکھ کُھل جائے تو پھر خواب کہاں

جی جلاتے ہیں سحر کے جھونکے
کھو گیا چشمہ کتاب کہاں

شہر سنسان ہے صحرا کی طرح
اب وہ ہنگامہ احباب کہاں

سطح دریا تو ہے ہموار مگر
بستیاں ہوگئیں غرقاب کہاں

تلخئی سم ہے بسوں کے مس تک
کوئی پی جائے تو زہر اب کہاں

عشق اک کوہ گراں تھا پہلے
اب محبت کے وہ آداب کہاں

اب کہاں اہل وفا ملتے ہیں
پہلے ہم لوگ تھے نایاب کہاں

اب تو دھڑکن سے بھی جی ورکتا ہے
اب یہ دل پارہ سیماب کہاں

ق

ہم بھی کرتے تھے چراغانِ بہار
لیکن اب آنکھوں ہیں خونناب کہاں

ہم کو بھی لذّت غم تھی پیاری
لیکن اب جی میں تب وتاب کہاں

اب بھی پایاب نہیں موجہ غم
پھر بھی اندیشہ سیلاب کہاں

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW