سنہری دور
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب کا دور پاکستان کی تاریخ کا سنہراترین دور تھا۔ Saqoot-e-Dhaka
ایوب نے ایک اعلیٰ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت! بدعنوانی، بدنظمی، بلیک مارکیٹنگ، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور کرپشن کی روک تھا کے لیے اقدامات کیے۔
زرعی اصلاحات کیں اور خاص کر مشرقی پاکستان میں کئی ایک بڑے بڑے پروجیکٹس مکمل کیے جن میں کپتائی ڈیم، چٹاگانگ بندگاہ، ڈھاکہ یونیورسٹی، کئی ایک کالجز وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں بھی متعدد ڈیمز کیساتھ مفید زرعی اصلاحات کیں۔! ایوب دور میں پاکستان کی شرح پیداوار 9 سے 10 تک پہنچ چکی تھی۔ جو کہ اس وقت کی دنیا کے کئی ایک مغربی ممالک کیساتھ ساتھ جاپان تک سے کئی زیادہ تھی!
وہ ایک زبردست شخصیت کے مالگ تھے اور لوگ ان سے متاثر ہوتے تھے۔
انہوں نے مؤثر اقدامات کرتے ہوئے مارشل لأ کے تحت لگنے والی! فوجی عدالتوں کو جلد ہی ختم کر کے فوج کو بیرکوں میں واپس بھیج دیا۔ Saqoot-e-Dhaka
پاکستانی سیاست میں طاقت کا ہوس ہمیشہ ہی سے حصولِ اول رھا ہے۔ Saqoot-e-Dhaka
1964 میں جب ایوب خان ایک طرف خارجہ پالیسیوں میں پھانسے ہوئے تھے! دوسری جانب ازل کا دشمن بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ کی سازشوں میں ملوث تھا! ادھر حزبِ اختلاف نے صدارتی انتخابات پر زور دیا۔
ایک طرف مذہبی جماعتیں عورت کی حکمرانی کی خلاف آوازکنندہ تھیں! تو دوسری جانب مولانا مودودی کے اعلان پر کہ عورت حکمران ہو سکتی ہے! محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں لے آئے۔
فاطمہ جناح کی مقبولیت ناقابلِ تسخیر تھی۔! 31 اکتوبر کو مغربی اور 10 نومبر کو مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے! اور 2 جنوری 1965 کو انکے نتائج کا اعلان ہوا! جسکے تحت ایوب خان واضح برتری سے جیت گئے۔
اگرتلہ سازش
پاکستان نیوی کے لیفٹینٹ کمانڈر معظم حسین نے 15 اور 21 ستمبر کے! دوران شیخ مجیب الرحمن، احمد فضل الرحمن، اسٹیورذ مجیب، سلطان، نورمحمد کو کراچی میں اپنی رہائش پر مودعو کیا۔
مشرقی پاکستان کو آزاد مملکت بنانے کے لیے تجویز دی اور کہا! کہ جنگجو تو ہم بنا لیں گے مگر اسکے لیے مالی مدد اور رقومات کے ضرورت ہو گی۔! شیخ مجیب تو پہلے ھی سے ایسے کسی منصوبے پر کام کر رہے تھے! وہ متفق ہو گئے اور کہا کہ رقوم حاصل کرنا میرا کام ہے۔! Saqoot-e-Dhaka
سازش کے پیچھے جو وجہ پوشیدہ تھی وہ یہ تھی! کہ پاکستان کے دونوں صوبوں میں شدی عدم مساوات قائم ہے،! اسکو دور کرنے کا وعدہ صدرایوب نے بھی کیا تھا۔
ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے! بااسلحہ جدوجہد کے ذریعے مشرقی پاکستان کو الگ کرنا ہی ہے۔! نیز یہ کہ مشرقی پاکستانیوں کے لیے باعزت طریقہ پر زندگی گزارنے کا ایک یہی راستہ ہے! کہ وہ مغربی پاکستان سے الگ ہو جائیں۔
اس پر ان لوگوں نے شیخ مجیب سے پوچھا کہ! اگر ایسا قدم اٹھایا جائے تو ہندوستان کا کیا عمل ہو گا!جس پر شیخ مجیب نے کہا کہ وہ مجھ پر چھوڑ دیں!اور اس کام کو سست روی سے آگے بڑھنے دیں۔
شیخ مجیب کا یہ بھی خیال تھا کہ درجہ بالا صدراتی انتخابات! میں اگر محترمہ فاطمہ جناح جیت جاتی ہیں تو شاید ان اقدام کی ضرورت ہی نہ رہے۔
غداری
جیسا کہ اوپر درج ہے کہ انتخابات میں ایوب خان واضح برتری سے جیت گئے۔ Saqoot-e-Dhaka
ان اتتخابات کے بعد شیخ مجیب دوبارہ کراچی آئے! اور اب کی بار یہ سرگرمیاں تیز کر دینے کا حکم دیا۔! سن 65 کی جنگ چھڑ جانے کے باعث ان میں اکثر کو مشرقی پاکستان تعینات کیا گیا! مگر وہاں بھی یہ لوگ اپنی سازشوں میں لگے رہے۔
بہرحال یہ سازش بے نقاب ہو گئی! اور نومبر 1967 میں ونگ کمانڈر اشفاق میاں کو ایک اجلاس کی اطلاع دی گئی! کہ یہ یہ لوگ مشرقی پاکستانی کی علیخدگی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
دورانِ تفتیش جو مواد پکڑا گیا اس میں بنگلہ دیس کا جھنڈا، دوستور کا طبع شدہ کتابچہ بھی موجود تھا۔! لیفٹینٹ جنرل غلام جس نے شیخ مجیب الرحمٰن کو پکڑا اس نے سازشی رپورٹ لکھتے ہوئے لکھا:! “اگر شیخ مجیب الرحمٰن کو رہا کیا گیا تو یہ پاکستان توڑنے کے عمل کا آغاز ہو گا”۔
دنیا کے کسی بھی معاشرے! اور ملک میں اس طرح کی سازش کا پکڑے جانا High Treason ہوتا ہے! اور اسکی سزا موت کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔! مگر صدرایوب اپنے اقتدار کے ایسے! دور میں پہنچ چکے تھے کہ جہاں وہ مزید پانچ سال کے لیے منتخب ہونا چاہتے تھے! لہٰذا وہ عوامی دباؤ کے تحت اس سازشی ٹولہ کو بغیر کسی سرزنش کے چھوڑنا پڑا۔
ایوبی زوال
صدرایوب ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے تھے! جہاں ان کے کچھ اقدامات سے عوام میں اضطراب پایا جانا لگا! اور اپوزیشن بھی ان پر ضرب کاری کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔
یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت طلبا شدید ناراض ہوئے ملک گیر فسادات ہوئے! اور متعدد طلبا ہلاک و زخمی ہوئے۔! اسی اثنأ بھٹو کے حامیوں اور پولیس میں تصادم ہوا۔! 13 نومبر 1968 کو بھٹو، ولی خان، اجمل خٹک اور دوسرے راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا،! اس وقت شیخ مجیب اوپربیان کردہ سازش میں پہلے ہی سے اندر تھے۔! ان لوگوں کو 15 فروری کو رہا کیا گیا۔ Saqoot-e-Dhaka
ملک گیر ہنگامے شروع ہو گئے۔!فتنے فساد کی چپقلشیں، جماعتی اختلافات، تصادم، ہڑتالیں، تامرگ فاقے، مظاہرے، جلوس اور مارچ روز کے معمول بن چکے تھے۔
کئی سو افراد گرفتار ہوئے لاکھوں کی املاک کو نقصان پہنچا! اور حالات جب بے قابو ہونے لگے! تو ایوب خان کو احساس ہوا کہ اب اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ایوب نے بھٹو، بھاشانی، اصغرخان، جنرل اعظم اور جسٹس مرشد کو دعوت نامہ بھیجا جو ان سب نے ٹھکرا دیا۔! بھٹو نے کہا کہ عوام تبدیلی چاہتی ہے رعایت نہیں۔! اور شیخ مجیب نے جنرل یحییٰ خان کے مشورے پر اپنی رہائی کو مشروط بنا دیا۔!
ہر پارٹی اپنے اپنے مطالبات منوانے پر سرگرم تھی اور شیخ مجیب کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھی! یہاں تک کہ مجلس جمہوری عمل نے گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے! اگرتلہ کیس واپس لینے اور شیخ مجیب سمیت سب مجرمان کو چھوڑنے سے مشروط کر دیا۔
مارشل لا
ایکبار پھر ماشل لا لگانے پر غور ہوا۔! ایوب نے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو بلایا جس میں جنرل یحیٰی خان نے کہا:! “جناب فوج آپ کے ساتھ ہے اپ حکم دیں باقی کام ہم پر چھوڑ دیں،! ان بدمعاشوں سے ہم نپٹ لیں گے” ان الفاظ ایوب کے لیے واضح دھمکی بھی شامل تھی۔
ڈھاکہ مکمل طور پر لاقانونیت کا شکار ہو چکا تھا۔ Saqoot-e-Dhaka
حکومت امن و امان قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ہو چکی تھی۔! کرفیو کے باوجود ڈھاکہ میں بری طرح سے لوٹ مار اور فسادات ہو رہے تھے۔
ایوب خان ایک ہارے ہوئے انسان کی مانند یحیٰی خان سے مشورے کے بعد اگرتلہ کیس واپس لینے پر مجبور ہو گیا! اور22 فروری کو شیخ مجیب کو اسکے غدار ٹولے سمیت رہا کر دیا گیا۔
شیخ مجیب نے مشرقی لیڈروں سے مل کر پہلا بیان یہ دیا کہ ہم پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے، بلکہ ون یونٹ توڑ کر تمام صوبوں کو مکمل خودمختاری دینا چاہتے ہیں۔
شیخ مجیب دوسرے لیڈروں کی طرح 26 فروری کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے راولپنڈی پہنچا مگر کانفرنس 10 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔ بھٹو نے مذاکرات کو فضول عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ دستوری مسائل اپوزیشن خود طے کرے، اسپیکر صدر کے فرائض سنبھالے، عوام دستور ساز اسمبلی منتخب کرے۔
دس مارچ کو گول میز کانفرنس ہوئی جس میں صاحبزادہ نصراللہ خان نے دو نکات پیش کیے:
- ملک میں پالیمانی نظام قائم کیا جائے جس میں صوبوں کو علاقائی خودمختاری حاصل ہو
- اسمبلیوں کے انتخابات براہِ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوں
پسِ پردہ سازشیں
صدرایوب نے یہ نکات 17 مارچ کو تسلیم کر لیے۔ Saqoot-e-Dhaka
مگر بھٹو نے کانفرنس کے خلاف اپنی یلغار جاری رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں میز کے ایکطرف مکمل طور پر مسترد حکومت اور دوسری جانب وہ سیاستدان براجمان ہیں جنہیں عوام نے فیصلے کا کوئی اختیار نہیں دیا۔
اگر حکومت اور سیاستی جماعتیں کسی مسئلے کو حل کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں تو مسٹر بھٹو کی منطق کے مطابق فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی اہل تھی۔
یاد رہے اس سارے عرصے میں مسٹر بھٹو فوج کے اعلیٰ افسران اور خاص جنرل پیرزادہ سے رابطے میں تھے۔ بقول قدرت اللہ شہاب انہی افسران نے بھٹو کو کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر اکسایا تھا۔
درحقیت یہ کھیل جنرل یحیٰی خان کھیل رہے تھے۔
انہوں نے اعلیٰ چابکدستی سے ایک طرف جنرل ایوب کو گول میز کانفرنس میں الجھا دیا اور دوسری جانب ذوالفقارعلی بھٹو کو تھپکیاں لگاتے ہوئے اس کانفرنس کو متنازعہ بنانے کے کام پر مامور کردیا تھا۔ جنرل یحییٰ کے ایما پر بھٹو کانفرنس اور مجلس جمہوری عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے اور اسکے کام کو سبوتاژ کرتے۔
گول میز کانفرنس کے بعد شیخ مجیب نے مجلس جمہوری عمل سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔
انکا موقف تھا کہ گول میز میں مشرقی پاکستان کی خودمختاری کی بات نہیں کی گئی۔ ان کے اس خیال کو سندھ اور بلوچستان کے لیڈر اور خاص کر خان عبدالولی خان ہوا دے رہے کہ اس طرح انکے اپنے صوبے کی خودمختاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔
مزیدفسادات
گوکہ مجلس جمہوری عمل کے لیڈر گول میز کو کامیاب قرار دے رہے تھے مگر سارے ملک میں حالات ابھی ابتر تھے۔ Saqoot-e-Dhaka
لوٹ مار، جلسے جلوس، ہڑتالیں، توڑ پھوڑ مسلسل ہو رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس سے حالات مزید بگڑ گئے یہاں تک کہ پروازیں تک منسوخ ہونا شروع ہو گئیں۔
مولانا بھاشانی نے ایک جلسے میں دھمکی دی کے جب تک مشرقی پاکستان کے طلبا کے 11 اور مغربی پاکستان کے 9 نقاط نہ مانے گئے ہم انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔
اگر الیکشن کرانے کی کوشش کی گئی تو ہم الیکشن افسران کی ہڈیاں توڑ دیں گے، اگلے ہی روز مولانا بھاشانی نے مزید دھمکی دیدی کہ اگر مزدوروں کے مطالبات نہ مانے گئے تو کارخانوں پر قبضہ کر لیا جائے گا۔
اس سے مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ باوجود صدر ایوب کی اپیل کے ملک کے حالات بہتر نہ ہوئے۔
عدم تعاون
اس موقع پر جو حالات وزیردفاع اے آر خان نے پیش کیے وہ اس لنک پر پڑھیئے۔ ان حالات کے تحت تمامتر سیاسی جماعتوں کے عدم تعاون کی بنا پر ملک خانہ جنگی کے دھانے پر کھڑا تھا خاص کر مشرقی پاکستان کو فقط ایک چنگاری کی ضرورت تھی کہ وہاں خانہ جنگی شروع ہو جاتی۔ Saqoot-e-Dhaka
یوں محسوس ہوتا تھا کہ تمامتر سیاسی لیڈر اس بات کے منتظر ہیں کہ حکومتِ وقت شدید حد تک ناکام، کمزور اور بے بس ہوجائے۔ مگر صدرایوب نے ہار ماننے کی بجائے حالات سے نبٹنے کے لیے مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کر لیا
اپوزیشن لیڈران جن میں بھٹو، مجیب اور اصغرخان شامل ہیں، ان سے مل کر ایوب کو شدید مایوسی ہوئی اور اس کو اندازہ ہوا کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو ان حالات میں بھی اپنے ذاتی مفاد سے بڑھ کر سوچ رھا ہو۔
لہذا اس نے 20 مارچ 1969 کو مارشل لاء لگانے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا۔
ایوب نے اپنی کابینہ بلائی جس میں زیادہ تر وہ فوجی ماہرین تھے جنہیں جنرل یحیٰی خان نے کوئی نہ کوئی عہدے دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا اور کچھ جنرل یحیٰی کے ڈائرکٹ ایجنٹ تھے۔
جب صدرایوب نے یحیٰی خان سے مارشل لاء لگانے کی نسبت مشورہ مانگا تو انہوں نے جواباً کہا کہ میں یہ بات صدر صاحب سے تنہائی میں کرنا چاہتا ہوں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یحیٰی خان نے ایوب خان سے سن 62 کا آئن منسوخ کرنے کو کہا۔
ایوب کی رخصتی
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ 25 مارچ 1969 کو یحیٰی خان اپنے دوساتھیوں کے ساتھ ایوب خان کے دفترمیں داخل ہوئے اور انکے انداز سے ایوب خان سمجھ گئے کہ یہ انکے اقتدار کی آخری گھڑی ہے۔
جس طرح ایوب خان نے اسکندرمرزا سے اقتدار لیا تھا، اسی طرح آج وہ اپنا اقتدار یحیٰی خان کے حوالے کر رہے تھے۔ ایوب خان ایک زبردست عاقل انسان تھا، اس نے اپنی الوداعی گفتگو میں چند زبردست باتیں کہیں:
- یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ میں نے اس ملک کو دس سال تک متحد رکھا، یہ ایسے ہی ہے جیسے بہت سارے مینڈکوں کو ایک ہی ٹوکری میں رکھنا ہے
- مشرقی پاکستان کے لوگوں کو انکی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے دیں، ملک ایک پائیدار مرکز کے بغیر اپنی موجودہ صورت میں قائم نہیں رہ سکتا
- مشرقی پاکستان چند برسوں کا مہمان ہے، مغربی پاکستان جیسے تیسے چلتا رہے گا
- موجودہ حالات میں تمام سیاسی لیڈر مفاد پرست ہیں۔۔۔ ان میں بھٹو سمیت شیخ مجیب اور اصغر خان تک شامل ہیں
عوام سے اپنی آخری تقریر میں صدرایوب نے ملک کی ابتری کے حالات بتاتے ہوئے یہ بھی باور کرایا کہ سیاسی جماعتیں اسقدر عدم تعاون کا مظاہرہ کر رہی ہیں کہ کئی ہفتوں کے گفت و شنید کے بعد وہ صرف 2 نکات پر ہی اتفاق کر سکی ہیں۔
درحقیقت ہر جماعت اس وقت شیطانیت کا روپ دھارے حالات کو مزید تر خراب کرنے میں آگ لگا رہی تھی۔ وہ صدرایوب سے چھٹکارا چاہتی تھیں اور بس! Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part II
اور نہ صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ خود یحییٰ خان بھی صدرایوب کی اس حالت پر محظوظ ہوتے تھے اور انتظار میں تھے کہ کب صدرایوب استعفیٰ دیکر حکومت جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرتے ہیں۔
سقوطِ ڈھاکہ – کیوں اور کیسے؟ پارٹ 3
Saqoot-e-Dhaka, Bangladesh, Zulifqar Ali Bhutto, Shaikh Mujib ur Rehman, General Yahya, General Ayyub, Pakistan History
بقلم مسعود
Add Comment