Disaster Ya Azzab? Disaster Ya Azzab? Disaster Ya Azzab? Disaster Ya Azzab? Disaster Ya Azzab? Disaster Ya Azzab? Disaster Ya Azzab?
ایک محتاط اندازے کے مطابق tsunami سے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور انگنت ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ نجانے حتمی تعداد کہاں تک پہنچ جائے۔ سائنسدانوں کے نزدیک اِس کا ایک قدرتی جواز ہے، کہ زیرِآب زمین کی تہ کی پلیٹیں ہلیں اور زلزلہ بپا ہوگیا اور تباہی ہوئی۔ مگر میری سوچ کہیں اور جا اٹکی ہے۔کیا یہ محض ایک قدرتی حادثے کے سوا اور کچھ نہیں؟؟ اس قدر جانی اور مالی نقصان کسی بھی سبق کا اشارہ نہیں دیتا؟؟
اِن باتوں کا کھوج لگانے کے لیے میں سب سے پہلے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھتاہوں۔
تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے! کہ جب بھی کسی بھی قوم نے سرکش ہونے کی کوشش کی ہے! اللہ تعالیٰ نے اُس پر عذاب نازل کیا ہے۔! کوئی ایک مثال دیے بغیراس بات کا جائزہ لونگا! کہ اِس علاقے میں کیا سرکشی ہوئی ہے! جس کا عذاب ان غریبوں اور لاچاروں کو ملا ہے کیوں کہ مرنے والوں کی زیادہ تر تعداد غریب ہی تھے!۔ تو جواب یہ ہے کہ عذاب غریبوں پر نازل نہیں ہوا بلکہ اُن امیروں پر ہوا ہے! جو اِس علاقے میں سرکشی کا بازار گرم کرتے تھے! اورغربأ کو اس سرکشی میں شامل رکھتے تھے۔!مگر جب عذاب آتا ہے تو ہرکوئی اُس کی زد میں آجاتا ہے۔
تو پھراِس علاقے میں کون سی سرکشی سرزد ہوئی ہے؟
صرف سکنڈے نیویا (ڈنمارک، سویڈن اور ناروے) کے تقریباً دوہزار سے زیادہ افراد کے مرنے یا لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے۔! سکنڈے نیویا کے لوگ ان علاقوں میں فحاشی کو بہت عروج دے رہے ہیں۔! جوان اور بوڑھے tsunami کی زد میں آنے والے علاقوں سے نوجوان اور معصوم عورتوں کو اپنے ساتھ لے آتے ہیں! اور اکثر سے پھرفحاشی کے اڈے پردھندے کروائے جاتے ہیں۔
تھائی لینڈ اس کی ایک بہت بری مثال ہے! جہاں کی دس لاکھ ڈالر کی ٹورسٹ انڈسٹری میں بہت بڑی تعداد فحاشی کے اڈے ہیں۔! یہ علاقہ یورپئین اور مغربی ممالک کے لیے! آزادانہ اور سستی تفریح کا ایک بہت بڑا مرکز ہے۔! نیا سال قریب ہے اور جس طرح مغربی ممالک کے لوگ سال مناتے ہیں،!نجانے کیا کیا پلاننگ کی گئی ہوگی کہ اِس علاقے میں یہ سال کیسے منایا جائے۔!مگرا للہ بہترکرنے والا ہے۔
یہ نہیں کہ اس طرح کی فحاشی کسی اور جگہ نہیں ہوتی ، ہوتی ہے، مگر اللہ کا عذاب کسی ایک جگہ نازل ہوتا ہے! تاکہ دوسری قومیں ان سے سبق سیکھیں۔! بے دین لوگ تو اسے ایک قدرتی حادثہ سمجھ کر پھرجب حالات بحال ہونگے اپنے اپنے دھندوں میں لگ جائیں گے،! مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان اِس واقعہ سے کوئی سبق نہیں سیکھ سکتے؟
سیکھنا ہوگا۔! ہمارے اپنے ملک میں فحاشی زرو پکڑتی جارہی ہے۔! یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارے کئی علاقے عربوں کے لیے فحاشی کے اڈے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔!کیا اللہ تعالیٰ ہمارے قرتوتوں سے ناواقف ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ دیکھ رہا ہے! اور جب مناسب سمجھے گا ہم پربھی اپنا عذاب نازل فرمائے گا۔! (یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ ہم ابھی بھی ایک بہت بڑے عذاب تلے دبے ہوئے ہیں! مگر ہم سمجھتے نہیں)! اور یہ المیہ ہمیں تباہ کررہا ہے کہ ہم مسلمان کسی بات سے سبق نہیں سیکھتے۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ قیامت کے نزدیک زلزلوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔!صرف ۱۹۹۸ سے لیکر اب تک دیکھیں تو ۱۰ کے قریب چھوٹے بڑے زلزلے کے واقعات ہوئے ہیں۔
تو پھرسمجھنے والوں کو کب سمجھ آئے گی؟! کیا ہمیں اِس واقعہ پر افسوس و ملال ہی کرتے رہنا چاہیے یا پھر کوئی سبق بھی سیکھنا چاہیے؟! اللہ تعالیٰ کے طرف سے نازل کردہ یہ عذاب محض عذاب ہی ہے یا تمام بنی آدم اور خصوصاً مسلمانوں کے لیے ایک سبق !!!
مسعود۔ ۳۰ دسمبر۲۰۰۴
Add Comment