Khizaein
ایسی آئی ہیں خزائیں کہ بادِ بہاری کو ترسے
ایسی چھائی ہیں گھٹائیں کہ روشنی کو ترسے
ایسا لوٹا ہے گردشِ دوراں نے ھمیں
آنکھ اشکوں سے بھر گئی ہونٹ ہنسی کو ترسے
اب خلوص کو تولتے ہیں لوگ پتھر عوض
اب کے ایسا ملا ہے غم کہ خوشی کو ترسے
تیری قربتوں کے لمحے بھی اداس گزرے
تجھے پاس پا کر بھی دل دل لگی کو ترسے
Add Comment