Dar’alHakoomat: Duabi
فلیش بیک:
یہ بات ہے بیسویں صدی عیسوی کے پہلے عشرے کی! جب علامہ اقبال حالات سے دل برداشتہ ہو کر مستقل طور پر لندن چلے گئے۔! اور شاعری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا اِرادہ باندھ لیا۔! مگر علامہ کے دوست شیخ عبدالقادر بیرسٹر نے اصرار کیا کہ اقبال اپنی شاعری کو جاری رکھیں۔! کیونکہ اُنکی شاعری ایک عام ضمن کی شاعری نہیں بلکہ ایک سوئی ہوئی قوم کے لیے پیغامِ خودی ہے۔! اقبال کے اُستاد سر ٹھامس نے بھی انہیں شاعری کو بحال کرنے پر مجبور کیا! اور کہا کہ اقبال آپ کی قوم کو آپ کی شاعری کی ضرورت ہے۔! اقبال نے انگلستان کو خیرباد کہا اور ایک بار پھر خطۂ ہندوستان میں آ کر! اپنی شاعرانہ سوچ سے ایک سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔
قائدِاعظم ہندوؤں کی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کی منافقت سے تنگ آ کر ہمیشہ کے لیے انگلستان چلے گئے۔! اس بار علامہ اقبال نے انکے اندر حب وطنی اور اور اسلامی اقتدار کا نطف بویا اور قائداعظم واپس ہندوستان آ کر اپنی عوام کے جدوجہد کی تکالیف سہنے لگے۔
فلیش بیک:
دبئی میں خودساختہ جلا وطنی کاٹنے کے بعد مرحومہ بینظیر کو جب پھر اقتدار کی ہوس ہوئی، تو وہ امریکہ کی اشیرباد حاصل کرتی ہوئی پاکستان آ گئی۔ اور پاکستانی عوام کی خدمت اور حبُِ الوطنی کا نعرہ بلند کیا۔ بینظیر کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے لٹیرے کو بھی عوام کا دکھ درد یادآیا اور وہ جدّہ سے جمہوریت کا نعرہ لگاتا ہوا پاکستان سدھارا۔ پاکستانی قوم جو ایک ڈکٹیٹر سے جان چھڑانے کے لیے شدید desperateتھی۔ انہیں جھوٹے اور فراڈ لیڈروں کو ایک بار پھر اپنے قیمتی ووٹوں سے نواز کر اپنے اوپر حکمران کھڑا کر لیا!
(اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جیسی قوم ہو ہم اُسے لیڈر بھی ویسے ہی دیتے ہیں)۔
حالاتِ حاضرہ:
انتخابات ہو چکے۔ جنہیں اقتدار سنبھالنا تھا سنبھال چکے! مگر عوام وہی کی وہی ہے۔ اور رہے گی۔ کھوکھلے جمہوری تقاضے پورے کرنے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو کٹ پتلی وزیرِ اعظم مقرر کر کے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر (جو کل تک ایک پرلے درجے کا کرپٹ سرمایہ دار تھا) اپنے دبئی کے عالی شان محل میں جا بیٹھا ہے۔ اور پاکستانی عوام کے دکھ درد کی بات کر رہا ہے!
سب سے پہلے تو یہ پوچھنا ہے کہ کیا آصف علی زرداری انتخابات میں کامیاب سیاستدان ہے؟ ہرگز نہیں! وہ تو انتخابات میں کھڑا ہی نہیں ہوا تھا۔! پھر اُسے پاکستان اور پاکستانی عوام کی تقدیروں کا فیصلہ کرنے کا کیا حق ہے؟
کیا یہ جمہوری لبادہ اوڑھے ہوئے! ایک طرز کی ڈکٹیٹرشپ نہیں کہ جو سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر ہو،! وہی سب سے بڑا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے؟ چاہے وہ عوام کا چنیدہ لیڈر ہو یا نہ؟ پوچھنا یہ بھی ہے کہ کیا آصف علی زرداری کی نجی مصرفیات اتنی اہم ہیں! کہ پاکستان کی سیاسی تقدیر پر بات چیت کرنے لیے! اُس کے دربار پر حاضری دینے کے لیے! دبئی جانا پڑے یا لندن میں محفلیں منقعد ہوں؟
پاکستانی عوام عقل کی وہ اندھی قوم ہے! کہ اپنے سامنے تباہی کو دیکھ کر بھی اُسے آزادی کی نیلم پری سمجھ بیٹھی ہے۔
جس ملک کی تین میں سے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت ہی بیرونِ ملک ہو۔! وہاں پر عوام کے دکھ درد کی بات کیا ہوگی؟؟؟ دبئی اور لندن کے پرسکون زندگی میں رہ کر پاکستان جیسے ملک کی قیادت کرنا بہت آسان ہے۔! پاکستان میں کر عوام کے دکھ کو یاد کرنا آسان کام نہیں!
مگر عوام نہیں سمجھے گی!
میٹھی میٹھی باتیں کرنا ہر سیاسی لیڈر کی خوبی ہے۔! یہ لوگ اپنے الفاظ میں عوامی دکھ درد کی وہ کہانی بیان کرتے ہیں کہ عوام پسیج جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ پاکستانی عوام نے اپنے پاؤں پر ایک بار پھر کلھاڑی ماری ہے۔ مجھے اِس بات پر یقین ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی سیاسی لیڈر نے نہیں لوٹا، بلکہ ہمیشہ عوام نے اپنے آپ کو خود کو نیلام کیا ہے!ہماری قوم میں قوتِ فیصلہ کی کمی ہے۔
ہمیں یہ آس ہوتی ہے کہ کم سے کم محنت ہو اور زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو! یہی وجہ ہے کہ ہم اِن مکروں کردار سیاستدانوں کا تلوار سے صفایا کرنے کی بجائے بزدلی کے راگ پر جمہوری ناچ ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ضمیروں کو اطمینان میں لے آتے ہیں کہ ’ہم تو ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں‘!!!
کیسی شرمناک بات ہے کہ پاکستانی سیاستدان ، پاکستانی عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچے اور پھر بیرونِ ملک اپنے عالیشان محلوں میں بیٹھ کر ’جب ۔وقت۔ ملا۔کے۔تحت‘ پاکستان کی سیاسی تقدیر کاکھیل کھیلتے ہیں۔ ابھی تو اور کیا کچھ ہوتا ہے یہ وقت بتاتا ہے (مسکراتے ہوئے)۔
Add Comment