Kuch Dil Bhi Mera
کچھ دل بھی میرا ٹوٹ گیا ہے
کچھ تیری وفاؤں کا صلہ ہے
کچھ سماج کی دیواریں ہیں حائل
کچھ نصیب بھی اپنا پھیکا سا ہے
کچھ ہجر کی تمہید ہے ان آنکھوں میں
کچھ کاجل بھی بکھرا بھکرا سا ہے
کچھ کہنے کو باتیں ہیں انگنت سی
کچھ رکا رکا سا لب و لہجہ ہے
کچھ تم کو ہے جانے کی جلدی بہت
کچھ پلٹ پلٹ کر بھی دیکھنا ہے
کچھ شعلہ برساتے بادل امڈے
کچھ آگ میں گھر بنانا ہے
کچھ اپنوں نے کیے ستم بہت
کچھ صنم کا ہرجائی بن جانا ہے
بس تم ہی یہ نہ جان سکے مسعودؔ
کون اپنا ہے اور کون پرایا ہے
Add Comment