Bahaar Ki Hai
زخم ہوئے ہیں تازہ کہ ابتداء بہار کی ہے
اے دل ضبط کرنا! یہ سزا بہار کی ہے
اے نسیمِ سحر، جاؤ جو ان کے نگر تو کہنا
‘کرب کی آہوؤں میں ڈھلی وفا بہار کی ہے
ہجر کا بادل ہے چھایا، شامِ غم کٹھن
دل نے تجھ کو پکارا کہ ابتداء بہار کی ہے’
کیونکر پونچھ سکیں گے ہم آنکھوں میں آئے اشک
کہ اشکوؤں سے بھیگی ہوئی ردا بہار کی ہے
تیری محفل میں آ تو جائیں پر کیسے آئیں ہم؟
پاؤں میں ہیں سلاسل تو چاک قبا بہار کی ہے
ہم تو ٹھہرے صحرا نورد، کیا کام ہمیں شہر سے
خوشی رہو، سکھی بسو، یہی صدا بہار کی ہے
مسعودؔ شاید ہی ہو گا کوئی فرازؔ سے ناآشنا
“کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے”
Meri Shairi: Bahaar Ki Hai…
1 Comment