کلامِ ساغر: تڑپ رہی ہے
کلامِ ساغر: تڑپ رہی ہے
بہار سرو و سمن فسردہ، گلوں کی نگہت تڑپ رہی ہے
قدم قدم پر الم کدے ہیں، نگارِ عشرت تڑپ رہی ہے
شعور کی مشعلیں جلائیں، اٹھو ستاروں کے ساز چھیڑیں
کرن کرن کی حسین مورت، بحال ظلمت تڑپ رہی ہے
کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو
خزاں کے پتوں کی جھانجنوں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے
خیال کی چاندنی ہے پھیکی، نگاہ کے زاویے ہراساں
ہے شورِ مبہم صفات نغمہ نوائے فطرت تڑپ رہی ہے
وقار یزداں، نہ حسن انساں ضمیر عالم بدل گیا ہے
کہیں مشیت پی نیند طاری، کہیں معیشت تڑپ رہی ہے
شاعر: ساغرصدیقی
Bahar-o-saro-saman fasurdah gulon ki nik’hat tarrap rahi hai
Add Comment