ساغرصدیقی

کلامِ ساغر: تڑپ رہی ہے

کلامِ ساغر: تڑپ رہی ہے

کلامِ ساغر: تڑپ رہی ہے

کلامِ ساغر:   تڑپ رہی ہے

بہار سرو و سمن فسردہ، گلوں کی نگہت تڑپ رہی ہے
قدم قدم پر الم کدے ہیں، نگارِ عشرت تڑپ رہی ہے

شعور کی مشعلیں جلائیں، اٹھو ستاروں کے ساز چھیڑیں
کرن کرن کی حسین مورت، بحال ظلمت تڑپ رہی ہے

کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو
خزاں کے پتوں کی جھانجنوں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے

خیال کی چاندنی ہے پھیکی، نگاہ کے زاویے ہراساں
ہے شورِ مبہم صفات نغمہ نوائے فطرت تڑپ رہی ہے

وقار یزداں، نہ حسن انساں ضمیر عالم بدل گیا ہے
کہیں مشیت پی نیند طاری، کہیں معیشت تڑپ رہی ہے

شاعر: ساغرصدیقی


Bahar-o-saro-saman fasurdah gulon ki nik’hat tarrap rahi hai

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW