ساغرصدیقی

کلامِ ساغر: اگرچہ ہم جا رہے ہیں

کلامِ ساغر: اگرچہ ہم جا رہے ہیں – agarcheh hum jaa rahe hain mehfil se nala e dilfigar ban kar

کلامِ ساغر:   اگرچہ ہم جا رہے ہیں

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر
مگر یقین ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر

یہ کیا قیامت ہے باغبانو! کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر

جہاں والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا
جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر

یہار کی بدنصیب راتیں بلا رہی ہیں چلے بھی آؤ
کسی ستارے کا روپ لے کر کسی کے دل کی قرار بن کر

تلاش منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورت اعتبار بن کر

غرور مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے
کسی کی آنکھ کا نور ہو کر کسی کے دل کا قرار بن کر

دیارِ پیر مغاں میں آ کر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغرؔ
خدا کی بستی میں رہے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر

شاعر: ساغرصدیقی


logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW