Baqaid-e-Gham
ابھی تک ہوں بقیدِ غم دوستو
لب ہیں خاموش‘ آنکھیں نم دوستو
جگر ہے چھلنی‘ دھڑکن محکوم دوستو
تمہارے ہی انتظار میں رہے ہم دوستو
قیدِ غم بھی ہے عجب ستم دوستو
دکھ ہیں زیادہ سکھ کم دوستو
ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!
Add Comment