Shia Muslims Kon Hain
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علم سیکھو اور سکھاؤ
شروع کرتا ہوں اللہ کے بابرکت نام سے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔! اسی نے کائنات کی بساط بچھائی اور وہی اسکا نظام چلاتا ہے۔! وہی سب باطن و ظاہر کا جاننے والا ہے۔! وہی جانتا ہے کہ آسمانوں کی وسعتوں میں کیا ہے اور زمین کے تہوں میں کیا چھپا بیٹھا ہے۔! بیشک وہی انسانوں کے دلوں میں چھپے بھید تک کو جاننے والا ہے۔! وہی مالک ہے روزِ جزا کا، کون راہِ راست پر ہے اور کون بھٹکا ہوا ہے یہ سب جاننے والا وہی اللہ برحق ہے۔!
امابعد،
لاکھوں درود نازل ہوں نبی پاک ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر اور ہمیں قیامت کے روز آپ ﷺ کی شفاعت نصیب ہو-آمین
ارشادِنبوی ؐ ہے کہ علم سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔
معززدوستو
پس منظر
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
مجھے فیس بک کے ایک گروپ میں اس بات کا شرف نصیب ہوا تھا! کہ میں اس سوال پر لب گویائی کروں کہ شیعہ کو شیعہ کیوں کہا جاتا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو ماننے میں کسی قسم کا کوئی عذرنہیں پیش کرناچاہیے! کہ سنی شیعہ فسادات نے خون کی خوفناک ترین ہولیاں کھیلی ہیں، انسانیت کا خون اس بیدردی سے بہایا گیا ہے! گویا ہمیں اس بات کی رتی برابر پروا نہیں کہ ایک دن ہمیں اللہ کے حضورپیش ہوکر ان قتال کا جواب دینا ہے۔!
دونوں جانب کے نام نہاد علما نے اپنے اپنے مذہب کی دکانیں چمکانے کے لیے معصوم اور لائی لگ ٹائپ لوگوں کے ذہنوں کی ایسی خوفناک پروگرامنگ کی ہے! کہ معصوم اور بے کس لوگوں کے گلے کاٹنے پر جنت کے پروانے جاری کیے جاتے ہیں، گویا جنت انکے باپ کی جاگیر ہے اور یہ اسے اپنی مرضی سے آلاٹ کرتے ہیں۔یہ بدترین کھیل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے اور مزید اس میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔!
سنی مسلمانوں کو تو ہم جانتے ہیں کہ وہ کون ہے، شیعہ حضرات کون ہیں؟! انکی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ کیا یہ مسلمان ہیں؟ اگر مسلمان ہیں تو انہیں شیعہ کیوں کہاں جاتا ہے؟؟؟ ان سوالات کو سمجھنے کے لیے ہمیں دور جانا پڑے گا۔
میرے ایک دوست نےدو قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’شیعان قوم‘ حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں خود اللہ تعالیٰ نے متعارف کروائی۔ نہیں ہمیں مزید پیچھے جانا پڑے گا۔مگر کوئی بھی قرآنی آیت اس سوچ کی تائید نہیں کرتی کہ جو لفظ قرآن میں استعمال ہوا ہے وہ کسی بھی حوالے سے کسی بھی شیعہ فرقے کو ثابت کرتا ہے۔!
تاریخ
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
دینی نقطہ نظر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے اور جنات کو بے دھوئیں کی آگ کے پیدا کیا۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے عابد زاہد اور عبادت گزار جن ابلیس تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے حضرتِ انسان کی پیدائش کی اور تمام اہلیان جنت بمع ابلیس ،آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا اور ابدی ملعون قرارپایا۔! اسی ابلیس جو کہ شیطان کے روپ میں ڈھل چکا تھا، قیامت تک مہلت پا کر آزاد چھوڑدیا گیا۔شیطان نے انسانی دماغ میں وسوسے ڈال کر اسے بہکانا شروع کر دیا اور راہِ راست سے بھٹکانا شروع کر دیا۔!
اِن تمام باتوں کو ذہن میں رکھیے یہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
آدم کو دنیا آباد کرنے کے لیے بھیجاگیا اور ساتھ اللہ تعالیٰ نے شریعت دی۔!گویا انسانیت کی ابتداہوتی ہے۔اولادِ آدم بڑھتی ہے اور آدم کوعطا کی گئی شریعت پر تربیت پا کر زندگی گزارناشروع کی۔! لفظی طور پرانہیں بھی ہم شیعانِ آدم کہہ سکتے ہیں کیوں کہ لفظ شیعہ کا مطلب گروہ، فرقہ، انسانوں کا ٹولہ، تقسیم کیے ہوئے کے ہیں۔!
انبیا
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
جیسے جیسے تعداد میں انسان بڑھتے چلے گئے اور آس پاس کے علاقوں کی طرف ہجرت کرتے گئے ان میں شریعی معاملات میں غفلت بھی ہونے لگی۔ہم باخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کو بھٹکنے میں چنداں دیر نہیں لگتی۔! ایسا ہی ہوا، انسان بھٹک جاتا رہا مگر اللہ تعالیٰ انسان کی رہمنائی کے لیے نبی یا رسول بھیجتے رہے۔یہاں تک کہ یہ نوبت حضرت عیسیٰ ؑ تک آن پہنچی۔ علماء کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ تک کوئی دورایسا نہیں گزرا جس میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے کوئی نبی یا رسول موجود نہ رہا ہو۔!
بعض جگہوں پر دو دور نبی یا رسول بھی موجود رہے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی موجودگی میں آپ کے بھتیجے حضرت لوط ؑ کورسول بنا کر صدوم اور کدورا کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا۔نبیوں اور رسولوں کا یہ سلسلہ پیغمبرِ آخرزماں، شاہ لولاک، محبوبِ کائنات محمد مصطفی ﷺ پرآکر مکمل اور ختم ہوا۔! آپ ﷺ کے بعد نہ ہی تو کوئی نبی آئیگا نہ کوئی اور کتاب۔ آپ ؐ رسول برحق تھے! (یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ کیوں لکھا ہے)۔!
فتنہ
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ فتنات نے آپ ؐ کی حیاتِ مبارک ہی میں جنم لینا شروع کردیا تھا۔! سب سے پہلا فتنہ مسیلمہ کذاب کا تھا، جسکا خاتمہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں ہوا۔ ایک اور اہم واقعہ یہاں بیان کرنا ضروری ہے کہ جب آپ ﷺ کی طبیعت ناساز تھی اور روحِ مبارک پرواز کے قریب تھی کہ حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ آئیں ہم رسول خدا ﷺ کے پاس جائیں اور خلافت کی نسبت پوچھ لیں۔ اس واقعہ کو واقعہ قر
عمر فاروقؓ کے دور میں فتوحات کا جو عروج تھا! اس میں بہت سارے نئے علاقے سلطنت اسلامیہ کے زیرآئے! اور بالخصوص ایران جو زمانہ قدیم ہی سے ایک بہت مضبوط اور متمول ریاست رہی ہے! اور جہاں پر دوسرے ادیان عروج پر ہوتے تھے۔! ان علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
ابوبکرؓ ، عمرِ فاروق ؓ کے بعد حضرت عثمانِ غنیؓ کو مسندِ خلافت عطا کی گئی۔گوسلطنت اسلامیہ ایک مضبوط اور روزبروز مستحکم پاور کا روپ اختیارکرتی جارہی تھی، مگر پھر بھی سلطنت میں اندرورنی سازشوں نے سراٹھانا شروع کیا۔ اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں اور خاص کر ایسے علاقوں میں جہاں پہلے کبھی خودمختاری اور اپنی حکومتیں ہوا کرتی تھی۔
عثمانِ غنی کا دور ان اندرونی سازشوں کی نظر ہو گیا۔ ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنا چاھیے کہ عثمانِ غنی سے کچھ کمی بیشی ہوئی کہ جس سے لوگوں اور خاص کر مصر کے لوگوں کے دل میں آپؓ کے لیے کدورت بڑھ گئی۔!
اسی دوران یمن سے ایک یہودی شخص اٹھا، جس نے اسلام قبول کیا اور عبداللہ ابن سبا کے نام سے اسلامی سلطنت میں داخل ہوا۔ اس نے کوفہ، بصرہ، دمشق اور مصر میں نفرتوں کے جال بچھانا شروع کر دئیے۔ اور اپنی تمام تر ہمدریاں حضرت علیؓ کے ساتھ لگا دیں اور لوگوں کو بہکانے لگا۔گو کوفہ، بصرہ اور دمشق میں اس کی کوئی خاص نہ چلی مگر نفرتوں کی بنیاد پڑچکی تھی۔! شیطانیت اپنی مشینری شروع کرچکی تھی۔
شیعانِ علی
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
اس دوران مصر کے بلوائیوں نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا۔ اور حضرت علیؓ مسندِ خلافت پر فائز ہوئے۔ مگر افسوس کہ آپؓ کے دورِ خلافت میں یہ فتنے مزید بڑھتے ہی چلے گئے! اور جتنی محدود مدت آپؓ اس منصب پر رہے ہنگاموں کی نظر رہے۔مسلمانوں کی طاقت دو حصوں میں بٹ گئی۔
ایک حضرت علی کے وہ حمایتی جو آپ پر جان تک دینے سے گریز نہیں کرتے تھے،! جنہیں شیعانِ علی کہا جاتا ہے اور دوسرے وہ جنکا یہ کہنا تھا حضرت علیؓ تمام تر طاقت رکھنے کے باوجود حضرت عثمان کے قتل کا قصاص نہیں لے رہے۔ ان میں حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور انکا ساتھ دینے والے ہزاروں لوگ اور ادھر بنی امیہ کی طاقت جن کا امیر امیرمعاویہؓ تھا۔!
یہ حالات اندرونی خلفشاریوں اور جنگوں کی طرف لے گئے۔
جنگیں
پہلی جنگ بصرہ کے قریب حضرت علی اور حضرت عائشہ کی طاقتوں کے درمیان ہوئی اور جنگِ جمل کے نام منسوب ہوئی۔اس جنگ کے بعد حضرت علیؓ نے بڑے بڑے اکابردین کے سمجھانے کے باوجود امیرمعاویہؓ کو شام کی حکومت سے معزول کردیا! جس سے شامیوں میں حضرت علیؓ کے خلاف غصے کی لہردوڑ گئی۔ دونوں طرف سے فوجیں سامنے آئیں اور جنگِ صفین ہوئی۔!
حضرت علیؓ کی فوج زبردست کامیابی حاصل کررہی تھی! کہ شامیوں نے چالاکی کی اور قرآن کو ضامن بنا لیا کہ جنگ بندی ہو! اور جو فیصلہ قرآن کرے اس پر عمل ہونا چاہیے (یعنی قرآن کے مطابق جسے خلیفہ ہونا چاہیے اسکا انتخاب ہوناچاہیے)۔
یہ دیکھتے ہی حضرت علیؓ کی اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ جنگ سے دستبردار ہوگیا! اور کہنے لگا کہ جنگ کی بجائے یہی معقول ہے کہ قرآن کے مطابق فیصلہ ہو۔ حضرت علیؓ کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا۔ بات مان لی۔ دونوں جانب سے ایک ایک بندہ وکیل کیا گیا۔!!
مگر کچھ ہی دنوں میں اسی شیعانِ علی کے گروہ نے آوازیں لگانی شروع کردئی! کہ علی خدا اور خدا کے کاموں میں بندوں کو وکیل بناتا ہے،! علی تو کافر ہوگیا ہے(معاذاللہ) اور حضرت علی کی فوج سے علیحدگی اختیار کر کے ایک گروہ بنالیا جسکا نام خارجی قرارپایا۔ بہرکیف حضرت علی کے وکیل نے لوگوں سے کہا کہ حضرت علی کو خلافت سے معزول کیا جاتا ہے! تم لوگوں کو مکمل اختیار ہے کہ اپنے لیے نیا خلیفہ چن لو۔!
اسکے جواب میں امیرمعاویہؓ کے وکیل نے چالاکی دکھائی! اور کہا کہ میں اپنی طرف سے امیر معاویہ کو خلیفہ بناتا ہوں۔ بعد از پھر ان گروہوں میں تلخ کلامیاں ہونے لگیں! اور سازشیں اور انتشار اتنا پھیلا کہ سن ۳۸ ہجری میں حضرت علیؓ کو شہید کردیا گیا۔!
گروہ
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت علی کے دور ہی میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے تھے:! ایک جو آپ سے قصاص لینے کی غرض سے وجود میں آیا !اور ایک وہ جو ہر حال میں آپؓ کے ساتھ تھا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جنگِ صفین میں ایک گروہ الگ ہو کر خارجی بن چکا تھا۔ جب یہ خارجی لوگ حضرت علی کو کافر اور ان پر طرح طرح کی باتیں کرنے لگے! تو وہ گروہ جو آپ پر جان نچھاور کرتا تھا، وہ آپ کی شان میں وہ حدیثیں پڑھنے لگا! جوآپؓ کی شان بیان کرتی تھیں اور آپؓ کے لیے قصیدے گانے لگا۔!
یہی سے ان لوگوں کا لقب شیعانِ علی مشہورہوگیا۔ اور یہ لوگ شیعہ اولیٰ اور شیعہ مخلصین قرار پائے۔یہ لوگ تمام دوسرے صحابہ کو حق بجانب سمجھتے ہیں! اور کسی بھی ایسے بندے کی بات جیسا کہ ابن سبا تھا، نہیں مانتے تھے۔! امیرمعاویہ اور انکی فوج کو باغی ضرورکہتے مگر کافرنہیں اور نہ ہی کسی اور لقب پکارتے۔!
لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ان میں ایسے لوگ پیدا ہونا شروع ہو گئے جومرکزاعتدال سے نکل کر یہ کہنے لگے! کہ نہیں جی حضرت علی تمام تر صحابہ سے افضل و برتروبالا ہیں!۔
یہ گروہ شیعہ تفصیلیہ کے نام سے مشہورہوئے۔! انکا کہنا تھا کہ امامت صرف اور صرف حضرت علی اور انکی اولاد کا حق ہے،! لیکن یہ اپنی خوشی سے کسی اور کو امام بنا سکتے ہیں، لہذا خلیفہ ثلاثہ جو ان سے پہلے تھے! وہ برحق تھے کہ حضرت علیؓ نے بخوشی انکی اطاعت کی تھی۔
سازشیں
Meri Tehreer – Islam: Shia Kon Hain?
اس دور میں عبداللہ ابن سبا نے جو سازشوں کا جال بننے شروع کیا تھا،! اس نے ثمر دینا شروع کیا اور اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ میں دو نئے گروہ پیداہوئے:! شیعہ تبرائیہ اور شیعہ سبیہ یا سبائیہ۔
ان کے مطابق تمام تر صحابہ غاصب، ظالم اور منافق ہیں۔ اور وہ اسکی اساس جنگِ جمل، جنگِ صفین، خلفہ ثلاثہ کا حضرت علی سے خلافت چھیننا تھا، بیان کرتے تھے۔! بہت سارے لوگ اس سوچ کو قبول کرنے لگے۔!
دوسرا گروہ ابن سبا کے شاگردوں سے پیدا ہوا۔! اسکا نام غلاۃ تھا۔ یہ لوگ حضرت علیؓ کی الوہیت کے قائل ہیں،! بعد میں انہوں نے تھوڑی تبدیلی کی اور الوہیت کو چھوڑ کر یہ عقیدہ بنا لیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ میں حلول کیا ہے۔شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جیسے نبی اللہ تعالیٰ منتخب کرتا ہے! ایسے ہی خلیفہ کا تقرر بھی اللہ ہی کرتا ہے اور اللہ ہی نے جلی یا خفی وحی سے نبی پاک ؐ کوحضرت علیؓ کی خلافت کا پیغام دیدیا تھا۔!
جب ان مختلف فرقوں نے اپنی شناخت شیعہ کی حیثیت سے کرانا شروع کردی! تو جو اصل شیعانِ علی تھے انہوں نے خود کو اثناعشری کہنا شروع کردیا۔شیعیت کی نشوونما میں واقعہ کربلا نے بہت اہم اور کلیدی رول ادا کیا۔اس واقعہ پر کیا شیعہ کیا سنی حلقوں میں بہت شدید غلو کیاہے، مگر یہ موقع نہیں اس پر بات کرنے کا۔
سلطنتِ عباسیہ
۷۵۰ عیسوی ، تقریباً ۱۳۳ ہجری میں خلافتِ امیہ کا خاتمہ ہوا اور خلافتِ عباسیہ کی بنیاد رکھی گئی جس کا درالخلافہ کوفہ، بغداد تھا۔اس دوران امام جعفرصادق ؒ نے علم کی نشونما کے لیے کلیدی رول ادا کیا۔انکے علم سے بہت سارے سنی علما بھی مستفید ہوئے! جن میں سب سے نمایاں نام امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ شامل ہیں۔! کیونکہ یہ علم کوئی شیعہ یا سنی نہیں تھا بلکہ اسلامی تھا۔
غالباً اسکے بعد کے ادوار شیعہ علم کو پھیلانے میں نمایاں رہے۔! اور یہی وہ دور ہیں جن میں بہت سارے غلو اور بدعات شیعہ مذہب میں آتی گئیں۔
تاریخ کے حوالوں سے علم حاصل ہوتا ہے کہ یہی وہ دور تھا! جب شیعہ ازم کی بنیاد پڑی اور ان کے علوم جن میں بیشمار خرافات جمع کی گئی انکو عروج ملنا شروع ہوا!، غالباً اس میں واقعہ کربلا نے بھی بہت اہم اور کلیدی رول ادا کیا جسکو دین کے ساتھ منسلک کیا گیا!۔
شیعہ؟
حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ سن ۲۷۸ ہجری میں تقریباً ۸۹۵ عیسوی میں ایک فرقہ سراٹھاتا ہے جس کا نام قرامطہ ہے!۔ اہم بات ہے ابن کثیراسے شیعہ سے منسوب نہیں کرتے یعنی شیعہ کا الگ مذہب، دین یا فرقے کا ابھی مکمل کوئی وجود نہیں تھا۔قرامطہ کی تفتیش میں لکھا ہے کہ اسکے اور بھی بہت نام ہیں جیسا کہ اسماعیلیہ ،باطنیہ، جرمیہ، بابکیہ، محمرہ، تعلیمیہ اور سبعیہ۔
اس فرقے پر فارسی فلسفیوں کی چھاپ تھی! اور اسلام میں انتہائی بے ہودگیوں کو جگہ دی جس میں کچھ یہ ہیں! کہ انہیں پنچاس نمازوں کا حکم دیا جاتا، بارہ خلیفے مقرر کیے؛ اپنی پسند اور من مانی کے اصول اور قوانین بنا لیے؛ امام اہل بیت کی اتباع کی دعوت دی؛ ان کے اندر جو کفرتھا اسے چھپاتے اور جھوٹ موٹھ اسلام کا ڈھونگ رچاتے؛ بنی عباس جو سیاہ لباس پہنتے تھے ان کی موافقت حاصل کرنے کے لیے لال رنگ کو پہنتے؛ امام عباس سے اپنی تعلیم کو منسوب کرتے!۔
تعلیم
ان کی تعلیم کا انداز یہ ہوتا کہ پہلا قاعدہ یہ ہے! کہ حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ پر فضلیت ہے۔دوسرا قاعدہ کہ حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر بھی فضلیت ہے،! پھر سکھایا جاتا کہ ان صاحبان خو گالیاں کیسے دینی ہیں کہ ان حضرات نے حضرت علی اور اہلِ بیت پر بہت ظلم کیا ہے۔اگلا سبق پھر تمام اصحابہ کرام کو برابھلا کہنے کا ہوتا! جوآخر میں دین میں نقص اور برائیاں نکالنے کا ہوتااور دین کی نسبت برائی پیداکرنا ہوتا۔
کفر اور گمراہی کی ان حدوں تک پہنچ چکے تھے! کہ ان کی تعلیم ان کے ماننے والوں کے لیے قطعی میعوب نہیں تھی بلکہ شیطان نے ان کی ایسی تربیت کی یہ لوگ زور پکڑتے گئے! اور بہت اہمیت اور شان و شوکت والی ہوگئی تھی۔حالات اس قدر ان کے حق میں تھے کہ یہ لوگ مسجد حرام میں داخل ہو گئے! اور بے تحاشہ قتل و غارت کی اور حجاج کا خون بہایا،! حجر اسود کو توڑ ڈالا اور ساتھ لے جو ۳۳۹ ہجری تک ان کے پاس رہا۔
جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ بہت ان فرقوں نے بعد میں زبانِ عام میں خود کو شیعہ کہنا شروع کردیا تھا! جس کے وجہ سے اصل شیعہ نے اپنے آپ کو اثنا عشری کے نام سے منسوب کر لیا۔
تاریخ ہمیں اس بات کا بھی ثبوت دیتی ہے کہ کعبہ میں کئی بار شیعیوں نے خونریزی کی جس کے حالیہ مثال اسی سال کا حجِ مبارک ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شیعیوں کی یہ شاخیں ابھی بھی موجود ہیں اور ایران اور عراق میں اصحابہ کرام پر تہمتیں باندھتی ہیں۔ تاریخ کے ان جھروکوں میں جھانک کر دیکھنے سے شیعہ ازم کا اصل روپ سامنے آتا ہے۔
حاصل الکلام
یہ بات کسی یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ شیعہ کی جو موجودہ قسم ہے، اس کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے۔موجودہ شیعہ میں بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو مختلف گروہوں سے ملتی جلتی ہے۔
تاریخ سے اس بات کااب بھی جامع ثبوت نہیں ملتا کہ شیعہ کی موجودہ قسم کب اپنی حیثیت میں آئی۔ابن کثیر کی تاریخ میں پہلی بار شیعہ کی نسبت تیسری صدی ہجری! کے آخر میں اور چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں نظرآتا ہے۔
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں خلیفہ وقت اور رافضیوں کی ایک جھڑپ کا ذکر ملتا ہے! کہ رافضی محرم کے دنوں میں جو اپنی بدعات اپنائے ہوئے ہیں اسے صرف اپنے گھروں تک محدود رکھیں۔یہاں سے معلوم پڑتا ہے کہ رافضیوں میں عاشورہ اپنے گھروں میں ٹاٹ لگا !کر رونے دھونے کا سلسلہ تھا۔! باقی فرقوں کی نسبت ایسی بات نہیں ملتی۔
محرم کی یہ بدعات کی شاید ابتدا ہو رہی تھی،! اسی طرح سنیوں میں بھی پائی جانے والی بہت سے بدعات جیسے عیدمیلاد کابھی حتمی ذکر نہیں ملتا!۔ باقی واللہ عالم۔
شرک کے قریب باتیں
آخر میں کچھ ایسی باتوں کا ذکرضروری ہے جن پر اکثر مسلم شیعیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔
۱ حضرت علیؓ کو خدا ماننا، یا یہ ماننا! کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ میں حلول کیا ہے (علوی اور اسماعیلی فرقہ)
ایسی سوچ یہودیوں اور نصرانیوں کی ہے کہ وہ حضرت عزیر ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو خداسمجھتے ہیں
۲ کہ صرف علی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں
یہ بہت سخت قسم کا شرک ہے۔
۳ کہ حضرت علیؓ نے حضرت آدم ؑ کو اپنے ہاتھوں سے تشکیل دیا
۴ رزق اللہ تعالیٰ دیتے ہیں، نبی پاکؐ اسے وصول کرتے ہیں اور علی اسے تقسیم کرتے ہیں
اس کے بعد وہ علی سے کشادگی رزق کی دعا کرتے ہیں، جو کہ سراسرکفرہے
مزید
۵ یاعلی مدد کہہ کر ایسا عقیدہ رکھنا کہ علی اپنے مرضی سے مدد کرنے کی ہمت رکھتے ہیں
۶ امام خمینی نے اپنی کتاب ’الحکمہ الاسلامیہ‘ میں لکھا ہے: ’’ہمارے امام اس مقام پر ہیں جہاں پر
کوئی فرشتہ یا نبی نہیں۰۰۰ تخلیق ِ کائنات سے پہلے سرکارِ دوعالمؐ اور ہمارے امام نور سے پیدا کیے
گئے تھے‘‘ ؔ ایسی سوچ رکھنا بھی کفر ہے۔
۷ تقیہ ایک انتہائی سنجیدہ امر ہے، اسی طرح یہ بھی سوچ رکھنا کہ قرآن کے پوشیدہ معنی ہیں جو صرف
علی جانتے ہیں یا انکی آل، یہاں تک کہ نبی پاکؐ بھی انکے معنی نہیں جانتے۔کچھ فرقے یہ بھی کہتے
ہیں کہ موجودہ قرآن مکمل نہیں اور نہ ہی اپنی اصلی حالت میں ہے اور یہ کہ امام مہدی آخری دور میں
اصلی قرآن لیکر آئیں گے (اسطرح تو یہ ایک نئی شریعت کی بشارت دیتا ہے)
۸ اسی طرح شیعہ کا ایک فرقہ ہے غرابیہ۔ انکا عقیدہ تو یہودیوں سے بھی سخت ترین کفر پر مبنی ہے،انکا کہنا
ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو وحی لیکر علی کی طرف بھیجا تھا، جبرائیل غلطی سے محمد کی طرف چلے گئے اور
اور وحی محمد کو کردی‘‘ یہ بہت ہی شدید کفر ہے۔
حوالاجات
تاریخ ابن کثیر
اسلامی انسائیکلوپیڈیا
تاریخ ابن مسعودی
اردواسلامی انسائیکلوپیڈیا
تاریخ ابن خلدون
مختلف اسلامی لنکس اور کتابیں
تاریخ ابن سعد
وکیپیڈیا
Shia Islam, Shiaism, What is Shiaism, Islam
بقلم مسعودؔ
Add Comment